صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
7. بَابُ تَمَنِّي الشَّهَادَةِ:
باب: شہادت کی آرزو کرنا۔
حدیث نمبر: 2797
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا أَنَّ رِجَالًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي، وَلَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سعید بن مسیب نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مسلمانوں کے دلوں میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لیے نکل جاؤں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کر کے اپنے ساتھ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے لشکر کے ساتھ جانے سے بھی نہ رکتا جو اللہ کے راستے میں غزوہ کے لیے جا رہا ہوتا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری تو آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کر دیا جاؤں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 556  
´شہادت کی آرزو سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے`
«. . . 347- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: والذي نفسي بيده، لوددت أني أقاتل فى سبيل الله فأقتل، ثم أحيا فأقتل، ثم أحيا فأقتل، فكان أبو هريرة يقول ثلاثا: أشهد بالله. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں (تو قتال کروں) پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تین دفعہ فرماتے: میں اللہ (کی قسم) کے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 556]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7227، من حديث مالك، ومسلم 106/1876، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ جہاد اس قدر افضل اور عظیم الشان رکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حتی الوسع ہر جہاد میں بذاتِ خود شامل ہوتے تھے۔
➋ میدانِ جنگ وغیرہ میں نبی اور رسول قتل یعنی شہید ہوسکتا ہے۔
➌ سچی قسم کھانا ہر وقت جائز ہے۔
➍ ہر وقت دل میں شہادت کی تمنا سجائے رکھنا اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 346]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 347   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2797  
2797. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ اہل ایمان کے دل اس سے خوش نہ ہوں گے کہ وہ جنگ میں میرے پیچھے رہ جائیں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ہمراہ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلا ہو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری تو خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیاجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں۔ پھر قتل (شہید) کیاجاؤں پھر زندہ کیاجاؤں۔ پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کیاجاؤں، پھر شہید کر دیاجاؤں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2797]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شہادت کی آرزو کرنا اس نیت سے کہ اس سے شجر اسلام کی آبیاری ہوگی اور آخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے۔
یہ جائز بلکہ سنت ہے اور ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2797   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2797  
2797. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ اہل ایمان کے دل اس سے خوش نہ ہوں گے کہ وہ جنگ میں میرے پیچھے رہ جائیں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ہمراہ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلا ہو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری تو خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیاجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں۔ پھر قتل (شہید) کیاجاؤں پھر زندہ کیاجاؤں۔ پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کیاجاؤں، پھر شہید کر دیاجاؤں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2797]
حدیث حاشیہ:

موت کی تمنا کرنامنع ہے،البتہ شہادت کی آرزو رکھنا اس نیت کے ساتھ کہ اس سے شجر اسلام کی آبیاری ہوگی اور اورآخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے۔
یہ جائز ہی نہیں بلکہ سنت نبوی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہاد ہر مسلمان پر فرض نہیں بصورت دیگر رسول اللہ ﷺ اس میں پیچھے نہ رہتے اور نہ دوسروں کے پیچھے رہنے ہی کو جائز قراردیتے،البتہ اگردشمن حملہ کردے تو ہرمسلمان پر جہاد فرض ہوجاتا ہے جبکہ وہ جہاد کی طاقت رکھتا ہو۔

قبل ازیں عنوان کی غرض جہاد اور شہادت کی دعاکرناہے جبکہ اس عنوان سے مقصود شہادت کی تمنا کرناہے جو موت کی آرزو نہیں بلکہ شہادت پر درجات کے حصول کی خواہش ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2797