سنن ترمذي
كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: حدود و تعزیرات سے متعلق احکام و مسائل
7. باب مَا جَاءَ فِي تَحْقِيقِ الرَّجْمِ
باب: رجم کے ثبوت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1432
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ , وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ , وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ , فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ " الرَّجْمِ " , فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ , وَإِنِّي خَائِفٌ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ , فَيَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ , فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ , أَلَا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى , إِذَا أَحْصَنَ وَقَامَتِ الْبَيِّنَةُ , أَوْ كَانَ حَبَلٌ أَوِ اعْتِرَافٌ ". وَفِي الْبَاب , عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپ پر کتاب نازل کی، آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا اس میں آیت رجم بھی تھی ۱؎، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، (لیکن) مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ دراز ہو جائے گا تو کہنے والے کہیں گے: اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے، ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے، خبردار! جب زانی شادی شدہ ہو اور گواہ موجود ہوں، یا جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو وہ حاملہ ہو جائے، یا زانی خود اعتراف کر لے تو رجم کرنا واجب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور کئی سندوں سے یہ حدیث عمر رضی الله عنہ سے آئی ہے،
۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحدود 30 (6829)، صحیح مسلم/الحدود 4 (1691)، سنن ابی داود/ الحدود 23 (4418)، سنن ابن ماجہ/الحدود 8 (2553)، (تحفة الأشراف: 10508)، و مسند احمد (1/29، 40، 47، 50، 55)، سنن الدارمی/الحدود 16 (2368) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: آیت رجم کی تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2553)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1038  
´زانی کی حد کا بیان`
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خطاب فرمایا اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حق و صداقت دے کر مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل فرمائی۔ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی نازل فرمائی تھی۔ ہم نے خود اسے پڑھا ہے اور اسے یاد بھی رکھا ہے اور اسے خوب سمجھا اور دل و دماغ میں محفوظ بھی رکھا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کہنے والے کہیں گے کہ کتاب اللہ میں ہم رجم کی سزا کا ذکر نہیں پاتے۔ اس طرح وہ ایسے فرض کے تارک ہو کر جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا، گمراہ ہو جائیں گے۔ حالانکہ رجم کی سزا کتاب میں حق ہے اس شخص کیلئے جس نے زنا کیا ہو۔ اس حالت میں جبکہ وہ شادی شدہ ہو، وہ خواہ مرد ہوں یا عورتیں جبکہ دلیل قائم ہو جائے یا حمل ہو یا خود اقرار کرے۔ (بخاری)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1038»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحدود، باب رجم الحبلٰي في الزني إذا أحصنت، حديث: 6830، ومسلم، الحدود، باب رجم الثيب في الزني، حديث:1691.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زنا کا ثبوت تین طرح سے ہو سکتا ہے: ٭ چار عاقل بالغ مسلمان مردوں کی شہادتیں ہوں تو جرم زنا ثابت ہوگا۔
٭ یا زانی خود اقراری ہو کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔
٭ یا عورت حاملہ ہو۔
2.اگر یہ صورت پیش آجائے کہ ایک عورت شادی شدہ بھی نہیں اور لونڈی بھی نہیں مگر حاملہ ہے تو اس صورت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ اس پر حد زنا نافذ ہوگی‘ مگر امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک محض حمل سے حد جاری نہیں کی جائے گی۔
امام مالک رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر یہ خطاب فرمایا جس میں حد زنا کے جاری ہونے کے لیے گواہی اور زانی کے اقرار کے ساتھ ساتھ عورت کے حمل کو بھی معتبر دلیل قرار دیا اور مجلس میں موجود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے تردید نہیں کی تو گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات بمنزلہ اجماع کے ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1038   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1432  
´رجم کے ثبوت کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپ پر کتاب نازل کی، آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا اس میں آیت رجم بھی تھی ۱؎، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، (لیکن) مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ دراز ہو جائے گا تو کہنے والے کہیں گے: اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے، ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے، خبردار! جب زانی شادی شدہ ہو اور گواہ موجود ہوں، یا جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو وہ حاملہ ہو جائے، یا زانی خود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1432]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
آیت رجم کی تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1432   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4418  
´شادی شدہ زانی کے رجم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اس میں آپ نے کہا: اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی، تو جو آیتیں آپ پر نازل ہوئیں ان میں آیت رجم بھی ہے، ہم نے اسے پڑھا، اور یاد رکھا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر زیادہ عرصہ گزر جائے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ ہم اللہ کی کتاب میں آیت رجم نہیں پاتے، تو وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے چھوڑ کر گمراہ ہو جائے، لہٰذا مردوں اور عورتوں میں سے جو زنا کرے اسے ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4418]
فوائد ومسائل:
نیل الاوطار میں ہے کہ مسنداحمد اور طبرانی کبیرمیں ابوامامہ بن سہل اپنی خالہ عجماء سے راوی ہیں کہ قرآن کریم میں یہ نازل ہواتھا: (الشيخُ و الشيخةُ إذا زَنَيَا فارجمُوهُما البتة بما قضيا من اللذةِ) اسی طرح صیحح ابن حبان میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورہ احزاب سورہ بقرہ جتنی تھی اور اس میں (الشيخ و الشيخة) والی آیت بھی تھی (یعنی بعد میں اس سورت کا ایک حصہ منسوخ ہوگیا) (نيل الأوطار:٤/١0٢) الغرض اصحاب الحدیث کے نزدیک یہ حکم قرآن مجید اور سنت متواتر دونوں سے ثابت ہے۔
اور یہ نسخ کی ایک صورت ہے کہ آیت کا حکم باقی اور تلاوت منسوخ ہو چکی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ تلاوت موجود ہے، مگر حکم منسوخ ہے مثلا (الوَصِيَّةُ لِلوالدَينِ والأَقْرَبِينَ) (البقرة:١٨) ماں باپ اور وارثوں کے لئے ان کے حصے سے زیادہ وصیت منسوخ ہے، اگرچہ اس کی تلاوت باقی ہے۔
اور تیسری صورت یہ ہے کہ حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوچکے ہیں۔
مثلا رضاعت میں پہلے دس چوسنیوں سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔
آیت بھی تلاوت کی جاتی ہے، مگر الفاظ اور حکم دونوں منسوخ ہو چکے ہیں۔
(عشر رضعات معلومات يحرمن) اب پانچ چوسنیوں سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔
وہ بحکم احادیث ہے نہ کہ قرآن۔
(كتاب الفقيه والمتفقه از خطيب بغدادی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4418