سنن ترمذي
كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: حدود و تعزیرات سے متعلق احکام و مسائل
14. باب مَا جَاءَ فِي حَدِّ السَّكْرَانِ
باب: شرابی کی حد کا بیان۔
حدیث نمبر: 1443
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ , فَضَرَبَهُ بِجَرِيدَتَيْنِ نَحْوَ الْأَرْبَعِينَ " , وَفَعَلَهُ أَبُو بَكْرٍ , فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ , اسْتَشَارَ النَّاسَ , فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: كَأَخَفِّ الْحُدُودِ ثَمَانِينَ , فَأَمَرَ بِهِ عُمَرُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , أَنَّ حَدَّ السَّكْرَانِ ثَمَانُونَ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ نے اسے کھجور کی دو چھڑیوں سے چالیس کے قریب مارا، ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی (اپنے دور خلافت میں) ایسا ہی کیا، پھر جب عمر رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس سلسلے میں لوگوں سے مشورہ کیا، چنانچہ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: حدوں میں سب سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں، چنانچہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ میں سے اہل علم اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ شرابی کی حد اسی کوڑے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحدود 2 (6771)، (بدون قصة الاستشارة)، صحیح مسلم/الحدود 8 (1706) سنن ابی داود/ الحدود 36 (4479)، سنن ابن ماجہ/الحدود 16 (2570)، (تحفة الأشراف: 1254)، و مسند احمد (3/115، 180، 247، 272- 273)، سنن الدارمی/الحدود 9 (2357) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ شرابی کی حد چالیس کوڑے ہیں، البتہ امام اس سے زائد اسی کوڑے تک کی سزا دے سکتا ہے، لیکن اس کا انحصار حسب ضرورت امام کے اپنے اجتہاد پر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2377)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2570  
´شرابی کی حد کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شراب کے جرم میں جوتوں اور چھڑیوں سے مارنے کی سزا دیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2570]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ شرب نوشی کی سزا میں تعزیر کا پہلو پایا جاتا ہے جس میں کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے یعنی اس کی حیثیت مقرر حد کی نہیں جس میں تبدیلی جائز نہیں۔

(2)
دوسرے جرائم کی سزا میں صرف کوڑے مارے جاتے ہیں البتہ شراب نوشی میں کوڑوں کی بجائے جوتے وغیرہ بھی مارے جا سکتے ہیں۔

(3)
صحابہ کرام ؓ نے میں اسی کوڑوں پر اتفاق کرلیا اس لیے اب اسی کوڑوں کی سزا دینا درست ہے۔

(4)
جرید کھجور کے درخت کی شاخ کو کہتے ہیں جس سے پتے اتار دیے گئے ہوں، سزا دینے کے لیے اس قسم کی چھڑی استعمال کرنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2570   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1064  
´شراب پینے والے کی حد اور نشہ آور چیزوں کا بیان`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی۔ پس اس شخص کو دو چھڑیوں سے چالیس کے لگ بھگ کوڑے لگائے گئے۔ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ سزا دی۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہلکی ترین سزا اسی کوڑے ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کا حکم صادر فرمایا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ولید بن عقبہ کے قصہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کوڑے سزا دی اور ہر ایک سنت ہے اور یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک آدمی نے ولید کے خلاف شہادت دی کہ اس نے ولید کو شراب کی قے کرتے دیکھا ہے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس نے شراب پی نہ ہو گی تو قے کیسے ہو گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1064»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحدود، باب ما جاء في ضرب شارب الخمر، حديث:6773، ومسلم، الحدود، باب حد الخمر، حديث:1706، وحديث علي رضي الله عنه: أخرجه مسلم، الحدود، حديث:1707.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں شراب نوشی کی حد متعین نہیں تھی جیسا کہ دیگر حدود مقرر و متعین تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور ایک مقررہ حد‘ یعنی اَسّی (۸۰) کوڑے متعین کر دیے کیونکہ بعض اطراف و نواحی میں لوگ شراب نوشی میں کچھ زیادہ منہمک ہوگئے تھے اور اس کی سزا کو بے وزن و حقیر سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جانب ارسال شدہ تحریر سے ثابت ہے۔
فقہاء کے درمیان اس کی حد کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ وہ چالیس کوڑے ہیں یا اسی؟ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اخذ کرنا زیادہ مناسب اور اولیٰ ہے۔
2. حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان پر شراب نوشی کا الزام لگا۔
حمران اور ایک دوسرے آدمی نے ان کے خلاف گواہی دی۔
ان میں سے ایک نے تو یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے اور دوسرے نے یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب کی قے کرتے دیکھا ہے۔
اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک شراب پی نہ ہو اس وقت تک قے کیسے کر سکتا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بحیثیت خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان پر حد لگائیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اس پر حد لگاؤ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا جو اس کی سردی کا والی ہوا وہی اس کی گرمی کا بھی والی بنے‘ یعنی جو آدمی خلافت کی نرمی اور لذت سے لطف اندوز ہوا ہے وہی اس کی شدت اور کڑوی صورت کو بھی اختیار کرے۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اعزاء و اقرباء میری نسبت زیادہ ولایت و اختصاص رکھتے ہیں تو پھر انھیں ہی خلافت کی بری بھلی اور تلخ و شیریں باتوں اور حالات سے نپٹنا چاہیے اور جلاد کی ذمہ داری نبھانی چاہیے‘ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم انھیں حد لگاؤ۔
انھوں نے کوڑا پکڑا اور مارنا شروع کر دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ شمار کرتے جاتے تھے۔
جب وہ چالیس پر پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس! کافی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس (کوڑے) ہی لگائے تھے…الخ۔
3. صاحب سبل السلام فرماتے ہیں:مصنف (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) نے صرف‘ شراب کی قے کرنے کی گواہی دینے والے کا ذکر کیا ہے (حمر ان کی گواہی کا ذکر نہیں کیا۔
)
یہ مصنف کی کوتاہی ہے کیونکہ اس سے یہ وہم پڑتا ہے کہ شاید ولید بن عقبہ کو صرف ایک گواہی کی بنا پر کوڑے لگائے گئے تھے‘ حالانکہ حمران کی گواہی بھی تھی کہ اس نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے۔
وضاحت: «حضرت ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ قریشی تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے۔
فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئے۔
قریش کے ظریف‘ حلیم‘ بہادر اور ادیب لوگوں میں سے تھے۔
فطری شعراء میں سے تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفہ کا گورنر بنا دیا۔
پھر شراب نوشی کے الزام پر انھیں اس منصب سے معزول کر دیا۔
شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد فتنے سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے۔
رقہ میں مقیم ہوئے اور وہیں وفات پائی اور بلیخ میں دفن ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1064   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1443  
´شرابی کی حد کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ نے اسے کھجور کی دو چھڑیوں سے چالیس کے قریب مارا، ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی (اپنے دور خلافت میں) ایسا ہی کیا، پھر جب عمر رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس سلسلے میں لوگوں سے مشورہ کیا، چنانچہ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: حدوں میں سب سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں، چنانچہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1443]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ شرابی کی حد چالیس کوڑے ہیں،
البتہ امام اس سے زائد اسی کوڑے تک کی سزا دے سکتا ہے،
لیکن اس کا انحصار حسب ضرورت امام کے اپنے اجتہاد پر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1443   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4479  
´شراب کی حد کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے پر کھجور کی ٹہنیوں اور جوتوں سے مارا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس کوڑے لگائے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو بلایا، اور ان سے کہا: لوگ گاؤں سے قریب ہو گئے ہیں (اور مسدد کی روایت میں ہے) بستیوں اور گاؤں سے قریب ہو گئے ہیں (یعنی شراب زیادہ پینے لگے ہیں) تو اب شراب کی حد کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو عبدالرحمٰن بن عوف نے ان سے کہا: ہماری رائے یہ ہے کہ سب سے ہلکی جو حد ہے وہی آپ اس میں مقرر کر دیں، چنانچہ اسی (۸۰) کوڑے مارنے کا حکم ہوا (کیونکہ سب س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4479]
فوائد ومسائل:
فقہاء کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل میں پہلی چالیس ضربوں کو حد اورمزید چالیس کو تعزیر پر محمول کیا گیا ہے اور علمائے حق و فقہائے عظام امور شرعیہ میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے ہیں، بلکہ اجتہادی امورمیں اصحاب علم و رائے سے گہرا مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4479