صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
8. بَابُ فَضْلِ مَنْ يُصْرَعُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمَاتَ فَهُوَ مِنْهُمْ:
باب: اگر کوئی شخص جہاد میں سواری سے گر کر مر جائے تو اس کا شمار بھی مجاہدین میں ہو گا، اس کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2800
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ خَالَتِهِ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ، قَالَتْ: نَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَوْمًا قَرِيبًا مِنِّي، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ، يَتَبَسَّمُ، فَقُلْتُ: مَا أَضْحَكَكَ، قَالَ: أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ يَرْكَبُونَ هَذَا الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا لَهَا، ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ، فَفَعَلَ مِثْلَهَا، فَقَالَتْ: مِثْلَ قَوْلِهَا فَأَجَابَهَا مِثْلَهَا، فَقَالَتْ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ، فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِيًا أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ، فَلَمَّا انْصَرَفُوا مِنْ غَزْوِهِمْ قَافِلِينَ فَنَزَلُوا الشَّأْمَ، فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْكَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، ان سے محمد بن یحییٰ بن حبان نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اور ان سے ان کی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب ہی سو گئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے، میں عرض کیا کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو غزوہ کرنے کے لیے اس بہتے دریا پر سوار ہو کر جا رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر چڑھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آپ میرے لیے بھی دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی کیا (بیدار ہوتے ہوئے مسکرائے) ام حرام رضی اللہ عنہا نے پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی عرض کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا آپ دعا کر دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب سے پہلے لشکر کے ساتھ ہو گی چنانچہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے سب سے پہلے بحری بیڑے میں شریک ہوئیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں غزوہ سے لوٹتے وقت جب شام کے ساحل پر لشکر اترا تو ام حرام رضی اللہ عنہا کے قریب ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہو جائیں لیکن جانور نے انہیں گرا دیا اور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2776  
´سمندری جہاد کی فضیلت۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز میرے قریب سوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اس سمندر کے اوپر اس طرح سوار ہو رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ سے آپ دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی ان ہی لوگوں میں سے کر دے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2776]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری فوج حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تیار کی۔
یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور تھا۔
جس لشکر میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہ شریک ہوئیں یہ پہلی بحری مہم تھی جو 28 ھ میں پیش آئی۔ (فتح الباري، الجهاد، باب غزوة المراة في البحر: 94/2)

(2)
کسی فضیلت کے حصول کے لیے دعا کرنا یا کروانا درست ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کا پورا ہونا آپ کی حقانیت کی دلیل ہے۔

(4)
عورت جہاد میں اپنے محرم یا شوہر کے ساتھ شریک ہوسکتی ہے۔

(5)
حادثاتی موت بھی شہادت ہے۔

(6)
بحری جنگ میں شریک ہونے والوں کی تعریف سے ان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
فضائیہ بھی ایک لحاظ سے بحری فوج کے مشابہ ہے۔
بلکہ بعض لحاظ سے اس سے برتر ہے اس لیے یہ فضیلت بحریہ کے ساتھ ساتھ فضائیہ کے لیے بھی ہے تاہم بری فوج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2776   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2490  
´سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی بہن ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں قیلولہ کیا، پھر بیدار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے اپنی امت میں سے چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر، میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، فرمایا: تو انہیں میں سے ہے۔‏‏‏‏ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2490]
فوائد ومسائل:

یہ حدیث صریح اور واضح طور پر دلائل نبوت میں سے ہے۔
کیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جو آپﷺ کی وفات کے بعد وقوع پزیر ہوئی۔
جس کو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی اور نہیں جان سکتا۔
لہذا رسول اللہ ﷺ کو  بذریعہ وحی اس کا علم ہوا۔

یہ سن 28 ہجری حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کی بات ہے۔
جبکہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جہادی سفر کے امیرتھے۔
لہذا اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ومنقبت بھی ثابت ہوئی۔
نیز ان صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی بھی جنہوں نے ان کی معیت میں یہ سمندری سفرکیاتھا۔
یہ ایک جہادی سفر تھا۔


کسی خوش کن اور پسندیدہ بات پر ہنسنا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2490   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2800  
2800 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2800]
حدیث حاشیہ:
انبیاء ؑ کے خواب وحی اور الہام ہی ہوتے ہیں۔
آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی امت کے کچھ لوگ بڑی شان اور شوکت کے ساتھ بادشاہوں کی طرح سمندر پر سوار ہو رہے ہیں۔
آخر آپؐ کا یہ خواب پورا ہوا اور مسلمانوں نے عہد معاویہؓ میں بحری بیڑہ تیار کرکے شام پر حملہ کیا‘ ترجمہ باب اس طرح نکلا کہ ام حرام جانور سے اگرچہ گر کر مریں مگر آنحضرتؐ نے ان کو مجاہدین میں شامل فرمایا اور أنت من الأولین سے آپ نے پیش گوئی فرمائی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2800   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2800  
2800 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2800]
حدیث حاشیہ:

حضرات انبیاء ؑ کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ اس امت کے کچھ لوگ بڑی شان وشوکت کے ساتھ بادشاہوں کی طرح سمندر پر سوار ہورہے ہیں، آخر آپ کا یہ خواب پورا ہوا۔

حضرت عثمان ؓ کے عہدخلافت میں رومیوں سے جنگ لڑی گئی تھی۔
انھوں نے اس جنگ میں حضرت امیر معاویہ ؓ کو سپہ سالار بنایا۔
انھوں نے بحری بیڑا تیار کرکے شام پرحملہ کیا۔
حضرت ام حرام ؓ بھی ان کے ہمراہ تھیں جس میں وہ سوار ہوتے وقت گرکرفوت ہوگئیں۔

امام بخاری ؒ نے اس سے مسئلہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ وہ گرکرفوت ہوئی تھیں،تاہم رسول اللہ ﷺ نے انھیں مجاہدین میں شامل فرمایا جیساکہ آپ نے پیش گوئی میں فرمایا تھاکہ تو پہلے لوگوں سے ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2800