صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
11. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ} وَالْحَرْبُ سِجَالٌ:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ”اے پیغمبر! ان کافروں سے کہہ دو تم ہمارے لیے کیا انتظار کرتے ہو، ہمارے لیے تو دونوں میں سے (شہادت یا فتح) کوئی بھی ہو اچھا ہی ہے اور لڑائی ڈول ہے کبھی ادھر کبھی ادھر“۔
حدیث نمبر: 2804
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ هِرَقْلَ، قَالَ لَهُ: سَأَلْتُكَ كَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ، فَزَعَمْتَ أَنَّ الْحَرْبَ سِجَالٌ، وَدُوَلٌ فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى، ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ابن شہاب سے ‘ انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل نے ان سے کہا تھا میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے یعنی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ تمہاری لڑائیوں کا کیا انجام رہتا ہے تو تم نے بتایا کہ لڑائی ڈولوں کی طرح ہے ‘ کبھی ادھر کبھی ادھر یعنی کبھی لڑائی کا انجام ہمارے حق میں ہوتا ہے اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی حال ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش ہوتی رہتی ہے (کبھی فتح اور کبھی ہار سے) لیکن انجام انہیں کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2978  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے`
«. . . أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ: لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ . . .»
. . . ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2978]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2978 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ لفظی مطابقت کے لحاظ سے ابوسفیان رحمہ اللہ کا فرمان: «إنه يخافه ملك بني الأصفر» کہ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرتے ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«موضع الترجمة من خبر أبى سفيان قوله: يخافه ملك بني الأصفر [المستواري، ص: 167]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه هنا قوله: إنه يخاف ملك بني الأصفر [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یعنی ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرنا، یہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو ہے، مزید اگر غور کیا جائے تو یہ لوگ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک دیا گیا تھا وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لانه كان بين المدينة و بين المكان الذى كان قيصر ينزل فيه مدة شهر أو نحوه.» [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یقینا مدینے اور وہ جگہ جہاں قیصر ہے دونوں میں ایک ماہ یا کچھ لگ بھگ کی مسافت ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شام اور حجاز کے درمیان ایک ماہ یا اس سے زائد مسافت ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 236]
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة حديث أبى سفيان للترجمة قوله انه ليخافه ملك بني الأصفر صفود كان بالشام، و بين الشام و الحجاز مسيرة شهر.» [مناسبات تراجم البخاري، ص: 88]
ابوسفیان رحمہ اللہ کی حدیث میں ترجمۃ الباب سے مطابقت یہ ہے کہ ابوسفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: «انه ليخافه ملك بني الأصفر» اور وہ شام میں تھے، شام اور حجاز کے درمیان ایک مہینے کی مسافت ہے۔
فائدہ:
ہم یہاں پر عرب کا نقشہ واضح کر رہے ہیں، نقشہ کو دیکھ کر آپ مسافت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 434   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2804  
2804. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھیں حضرت ابو سفیان ؓنے خبر دی کی ہرقل نے ان سے کہا تھا: میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان (رسول اللہ ﷺ) کے ساتھ تمہاری لڑائیوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ تو تم نے جواب دیاکہ لڑائی تو ڈول کی طرح ہے، کبھی ادھر اور کبھی اُدھر۔ دراصل حضرات انبیاء ؑ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش ہوتی رہتی ہے لیکن انجام انھی کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2804]
حدیث حاشیہ:
یعنی یا تو مسلمان لڑتے لڑتے اپنی جان دے دے گا یا پھر فتح حاصل ہوگی۔
ایمان لانے کے بعد مسلمانوں کے لئے دونوں انجام نیک اور اچھے ہیں۔
فتح کی صورت کو تو سب اچھی سمجھتے ہیں لیکن لڑائی میں موت اور شہادت ایک مومن کا آخری مقصود ہے‘ اللہ کے راستے میں لڑتا ہے اور اپنی جان دے دیتا ہے‘ جب اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے تو اس کی نوازشیں اور ضیافتیں اسے خوب حاصل ہوتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2804   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2804  
2804. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھیں حضرت ابو سفیان ؓنے خبر دی کی ہرقل نے ان سے کہا تھا: میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان (رسول اللہ ﷺ) کے ساتھ تمہاری لڑائیوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ تو تم نے جواب دیاکہ لڑائی تو ڈول کی طرح ہے، کبھی ادھر اور کبھی اُدھر۔ دراصل حضرات انبیاء ؑ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش ہوتی رہتی ہے لیکن انجام انھی کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2804]
حدیث حاشیہ:

مسلمان لڑتے لڑتے اپنی جان،جاں آفریں کے حوالے کردیتا ہے یا فتح سے ہمکنار ہوتا ہے،اس کے لیے دونوں انجام اچھے ہیں۔
فتح کی صورت میں تو تمام لوگ اسے اچھے انجام سے تعبیر کرتے ہیں لیکن جنگ میں موت اور شہادت بھی ایک گم گشتہ سرمایہ ہے۔
جب وہ اللہ کے حضور پہنچتاہے تو اللہ کی طرف سے بہت سی نوازشات اسے حاصل ہوتی ہیں۔

امام بخاری ؒنے آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ (إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ)
سے مراد فتح یا شہادت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2804