صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
14. بَابُ مَنْ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ:
باب: کسی کو اچانک نامعلوم تیر لگا اور اس تیر نے اسے مار دیا، اس کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2809
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ أُمَّ الرُّبَيِّعِ بِنْتَ الْبَرَاءِ وَهِيَ أُمُّ حَارِثَةَ بْنِ سُرَاقَةَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَلَا تُحَدِّثُنِي عَنْ حَارِثَةَ وَكَانَ قُتِلَ يَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَهُ سَهْمٌ غَرْبٌ، فَإِنْ كَانَ فِي الْجَنَّةِ صَبَرْتُ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ اجْتَهَدْتُ عَلَيْهِ فِي الْبُكَاءِ، قَالَ: يَا أُمَّ حَارِثَةَ إِنَّهَا جِنَانٌ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنَّ ابْنَكِ أَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الْأَعْلَى".
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے حسین بن محمد ابواحمد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا قتادہ سے ‘ ان سے انس بن مالک نے بیان کیا کہ ام الربیع بنت براء رضی اللہ عنہا جو حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، اے اللہ کے نبی! حارثہ کے بارے میں بھی آپ مجھے کچھ بتائیں۔ حارثہ رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے ‘ انہیں نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر لگا تھا۔ کہ اگر وہ جنت میں ہے تو صبر کر لوں اور اگر کہیں اور ہے تو اس کے لیے روؤں دھوؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام حارثہ! جنت کے بہت سے درجے ہیں اور تمہارے بیٹے کو فردوس اعلیٰ میں جگہ ملی ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3174  
´سورۃ المومنون سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ربیع بنت نضر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، ان کے بیٹے حارث بن سراقہ جنگ بدر میں شہید ہو گئے تھے، انہیں ایک انجانا تیر لگا تھا جس کے بارے میں پتا نہ لگ سکا تھا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ مجھے (میرے بیٹے) حارثہ کے بارے میں بتائیے، اگر وہ خیر پاس کا ہے تو میں ثواب کی امید رکھتی اور صبر کرتی ہوں، اور اگر وہ خیر (بھلائی) کو نہیں پاس کا تو میں (اس کے لیے) اور زیادہ دعائیں کروں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حارثہ کی ماں! جنت میں بہت ساری جنتیں ہیں، تمہارا ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3174]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ارشاد باری تعالیٰ ﴿الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ﴾  (المومنون: 11) کی تفسیرمیں مؤلف نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3174   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2809  
2809. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ حضرت ام ربیع ؓجوبراء کی بیٹی اور حارثہ بن سراقہ ؓ کی والدہ ہیں، وہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوکر عرض کرنے لگیں: اللہ کے نبی کریم ﷺ! کیا آپ مجھے حارثہ ؓ کے متعلق نہیں بتائیں گے؟ وہ غزوہ بدر میں اچانک تیر لگنے سے شہید ہوگیا تھا۔ اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں، اگر کوئی دوسری بات ہے تواس پر جی بھر کر رولوں۔ آپ نے فرمایا: اے ام حارثہ ؓ! جنت میں تو درجہ بدرجہ کئی باغ ہیں اورتیرا بیٹا فردوس اعلیٰ میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2809]
حدیث حاشیہ:
روایت میں ام ربیع ؓ کو براء کی بیٹی بتلانا راوی کا وہم ہے‘ صحیح یہ ہے کہ ام ربیع نضر ؓ کی بیٹی ہیں اور انس بن مالکؓ کی پھوپھی ہیں۔
ان کا بیٹا حارثہ ؓ نامی بدر کی لڑائی میں ایک نامعلوم تیر سے شہید ہوگیا تھا‘ ان ہی کے بارے میں انہوں نے یہ تحقیق فرمائی۔
یہ سن کر ام حارثہ ؓ ہنستی ہوئی گئی اور کہنے لگیں حارثہ مبارک ہو! مبارک ہو! پہلے یہ سمجھیں کہ حارثہ دشمن کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا شاید اسے جنت نہ ملے مگر بشارت نبوی سن کر ان کو اطمینان ہوگیا۔
سبحان اللہ عہد نبوی کی مسلمان عورتوں کا بھی کیا ایمان اور یقین تھا کہ وہ اسلام کے لئے مر جانا موجب شہادت و دخول جنت جانتی تھی۔
آج کل کے مسلمان ہیں جو اسلام کے نام پر ہر ہر قدم پیچھے ہی ہٹتے جا رہے ہیں پھر بھلا ترقی اور کامیابی کیونکر نصیب ہو۔
اقبال نے سچ کہا ہے ؎ آتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول‘ طاؤس و رباب آخر
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2809   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2809  
2809. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ حضرت ام ربیع ؓجوبراء کی بیٹی اور حارثہ بن سراقہ ؓ کی والدہ ہیں، وہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوکر عرض کرنے لگیں: اللہ کے نبی کریم ﷺ! کیا آپ مجھے حارثہ ؓ کے متعلق نہیں بتائیں گے؟ وہ غزوہ بدر میں اچانک تیر لگنے سے شہید ہوگیا تھا۔ اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں، اگر کوئی دوسری بات ہے تواس پر جی بھر کر رولوں۔ آپ نے فرمایا: اے ام حارثہ ؓ! جنت میں تو درجہ بدرجہ کئی باغ ہیں اورتیرا بیٹا فردوس اعلیٰ میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2809]
حدیث حاشیہ:

حضرت اُم حارثہ ؓنے یہ خیال کیا کہ میرا بیٹا دشمن کے ہاتھوں شہید نہیں ہوا شاید اسے جنت نہ ملے۔
جب انھیں پتہ چلا کہ ان کا بیٹا فردوس اعلیٰ میں ہے تو ہنستی مسکراتی ہوئی واپس ہوئیں اور کہنے لگیں۔
اے حارثہ! تجھے مبارک ہو حارثہ تیرے کیا ہی کہنے ہیں۔
۔
۔
رضي اللہ تعالیٰ عنه 2۔
واضح رہے کہ اس خاتون کا نام اُم ربیع بنت براء ؓ نہیں بلکہ ربیع بنت نضر ؓہے جو حضرت انس ؓ کی پھوپھی ہیں جنھوں نے اپنے شہید بھائی حضرت انس بن نضر ؓ کو انگلی کے پوروں سے شناخت کیا تھا۔
(فتح الباري: 29/6، 33)

اس حدیث سے امام بخاری ؒنے ایک وہم ازالہ کیا ہے کہ جب تیر مارنے والے کے متعلق معلوم نہیں کہ وہ کافر ہے یا مومن تو مقتول کو شہید کہنا کیسے ممکن ہے؟ اس پر تنبیہ فرمائی کہ میدان جنگ میں جو مسلمان مقتول پایا گیا وہ شہید ہے اگرچہ اس کا قاتل معلوم نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2809