سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
19. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ، وَالصِّبْيَانِ
باب: عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1570
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ خَيْلَنَا أُوطِئَتْ مِنْ نِسَاءِ الْمُشْرِكِينَ وَأَوْلَادِهِمْ، قَالَ: " هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
صعب بن جثامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے گھوڑوں نے مشرکین کی عورتوں اور بچوں کو روند ڈالا ہے، آپ نے فرمایا: وہ بھی اپنے آبا و اجداد کی قسم سے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 146 (3012)، صحیح مسلم/الجہاد 9 (1785)، سنن ابی داود/ الجہاد 121 (2672)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 30 (2839)، (تحفة الأشراف: 939)، و مسند احمد (4/38، 71، 72، 73) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اس حالت میں یہ سب اپنے بڑوں کے حکم میں تھے اور یہ مراد نہیں ہے کہ قصداً ان کا قتل کرنا مباح تھا، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو پامال کئے بغیر ان کے بڑوں تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ بڑوں کے ساتھ مخلوط ہونے کی وجہ سے یہ سب مقتول ہوئے، ایسی صورت میں ان کا قتل جائز ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2839)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2839  
´دشمن پر حملہ کرنے، شبخون (رات میں چھاپہ) مارنے، ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے احکام کا بیان۔`
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ مشرکین کی آبادی پر شبخون مارتے (رات میں حملہ کرتے) وقت عورتیں اور بچے بھی قتل ہو جائیں گے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ بھی انہیں میں سے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2839]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جو بچے یا عورتیں جنگ میں شریک نہ ہوں ان پر حملہ کرنا یا انھیں قتل کرنا جائز نہیں، (دیکھیے: حدیث: 2841)

(2)
دشمن کی فوج پر حملہ کرتے وقت اگر کوئی عورت یا بچہ زد میں آ جائے تو وہ معاف ہے۔

(3)
رات کو حملہ کرنا (شب خون مارنا)
جائز ہے تاکہ دشمن کو اچھی طرح دفاع کرنے کا موقع نہ ملے اور اسے شکست ہوجائے۔

(4)
وہ انھی میں سے ہیں یعنی وہ مشرک بھی ہیں اس لیے اگر نادانستہ طور پر وہ قتل ہوجائیں تو گناہ نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2839   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1570  
´عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت کا بیان۔`
صعب بن جثامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے گھوڑوں نے مشرکین کی عورتوں اور بچوں کو روند ڈالا ہے، آپ نے فرمایا: وہ بھی اپنے آبا و اجداد کی قسم سے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1570]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس حالت میں یہ سب اپنے بڑوں کے حکم میں تھے اور یہ مراد نہیں ہے کہ قصداً ان کا قتل کرنا مباح تھا،
بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو پامال کئے بغیر ان کے بڑوں تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔
بڑوں کے ساتھ مخلوط ہونے کی وجہ سے یہ سب مقتول ہوئے،
ایسی صورت میں ان کا قتل جائز ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1570