سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
27. باب مَا جَاءَ فِي الْغَدْرِ
باب: عہد توڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1580
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الْفَيْضِ، قَال: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ أَهْلِ الرُّومِ عَهْدٌ، وَكَانَ يَسِيرُ فِي بِلَادِهِمْ حَتَّى إِذَا انْقَضَى الْعَهْدُ أَغَارَ عَلَيْهِمْ، فَإِذَا رَجُلٌ عَلَى دَابَّةٍ أَوْ عَلَى فَرَسٍ وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَفَاءٌ لَا غَدْرٌ، وَإِذَا هُوَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ، فَسَأَلَهُ مُعَاوِيَةُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحُلَّنَّ عَهْدًا وَلَا يَشُدَّنَّهُ، حَتَّى يَمْضِيَ أَمَدُهُ أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ "، قَالَ: فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ بِالنَّاسِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ اور اہل روم کے درمیان (کچھ مدت تک کے لیے) عہد و پیمان تھا، معاویہ رضی الله عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے تاکہ جب عہد کی مدت تمام ہو تو ان پر حملہ کر دیں، اچانک ایک آدمی کو اپنی سواری یا گھوڑے پر: اللہ اکبر! تمہاری طرف سے ایفائے عہد ہونا چاہیئے نہ کہ بدعہدی، کہتے ہوئے دیکھا وہ عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ تھے، تو معاویہ رضی الله عنہ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جس آدمی کے اور کسی قوم کے درمیان عہد و پیمان ہو تو جب تک اس کی مدت ختم نہ ہو جائے یا اس عہد کو ان تک برابری کے ساتھ واپس نہ کر دے، ہرگز عہد نہ توڑے اور نہ نیا عہد کرے، معاویہ رضی الله عنہ لوگوں کو لے کر واپس لوٹ آئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 164 (2759)، (تحفة الأشراف: 10753)، و مسند احمد (4/111) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2464)
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2759  
´جب امام اور دشمن میں معاہدہ ہو تو امام دشمن کے ملک میں جا سکتا ہے۔`
سلیم بن عامر سے روایت ہے، وہ قبیلہ حمیر کے ایک فرد تھے، وہ کہتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لیے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے، (اس مدت میں) معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان سے جنگ کی، ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، وہ کہہ رہا تھا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو ۱؎ لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2759]
فوائد ومسائل:
اختتام معاہدے کے فورا بعد اچانک چڑھائی کرنا دھوکے میں شمار کیا گیا ہے۔
اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اسلام اور مسلمانوں کے لئے اندھی عصبیت میں مبتلا نہ تھے۔
بلکہ اس کے تمام اصول وضوابط کو ہر حال میں پیش نظر رکھتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2759