سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
29. باب مَا جَاءَ فِي النُّزُولِ عَلَى الْحُكْمِ
باب: دشمن کی مسلمان کے فیصلہ پر رضا مندی کا بیان۔
حدیث نمبر: 1582
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: رُمِيَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَطَعُوا أَكْحَلَهُ أَوْ أَبْجَلَهُ، فَحَسَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّارِ، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ، فَتَرَكَهُ، فَنَزَفَهُ الدَّمُ، فَحَسَمَهُ أُخْرَى، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا تُخْرِجْ نَفْسِي حَتَّى تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ، فَاسْتَمْسَكَ عِرْقُهُ، فَمَا قَطَرَ قَطْرَةً حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَحَكَمَ أَنْ يُقْتَلَ رِجَالُهُمْ وَيُسْتَحْيَا نِسَاؤُهُمْ يَسْتَعِينُ بِهِنَّ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَصَبْتَ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ "، وَكَانُوا أَرْبَعَ مِائَةٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَتْلِهِمْ، انْفَتَقَ عِرْقُهُ فَمَاتَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب میں سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو تیر لگا، کفار نے ان کی رگ اکحل یا رگ ابجل (بازو کی ایک رگ) کاٹ دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آگ سے داغا تو ان کا ہاتھ سوج گیا، لہٰذا آپ نے اسے چھوڑ دیا، پھر خون بہنے لگا، چنانچہ آپ نے دوبارہ داغا پھر ان کا ہاتھ سوج گیا، جب سعد بن معاذ رضی الله عنہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے دعا کی: اے اللہ! میری جان اس وقت تک نہ نکالنا جب تک بنو قریظہ (کی ہلاکت اور ذلت سے) میری آنکھ ٹھنڈی نہ ہو جائے، پس ان کی رگ رک گئی اور خون کا ایک قطرہ بھی اس سے نہ ٹپکا، یہاں تک کہ بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے حکم پر (قلعہ سے) نیچے اترے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلایا انہوں نے آ کر فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں کو زندہ رکھا جائے جن سے مسلمان خدمت لیں ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ان کے بارے میں اللہ کے فیصلہ کے موافق فیصلہ کیا ہے، ان کی تعداد چار سو تھی، جب آپ ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو سعد کی رگ کھل گئی اور وہ انتقال کر گئے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری اور عطیہ قرظی رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ (تحفة الأشراف: 2925) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی بنو قریظہ کی عورتیں مسلمانوں کی خدمت کے لیے ان میں تقسیم کر دی جائیں۔
۲؎: اس حدیث میں دلیل ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے فیصلہ پر دشمنوں کا راضی ہو جانا اور اس پر اترنا جائز ہے، اور ان کی بابت جو بھی فیصلہ اس مسلمان کی طرف سے صادر ہو گا دشمنوں کے لیے اس کا ماننا ضروری ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 38 - 39)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1582  
´دشمن کی مسلمان کے فیصلہ پر رضا مندی کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب میں سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو تیر لگا، کفار نے ان کی رگ اکحل یا رگ ابجل (بازو کی ایک رگ) کاٹ دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آگ سے داغا تو ان کا ہاتھ سوج گیا، لہٰذا آپ نے اسے چھوڑ دیا، پھر خون بہنے لگا، چنانچہ آپ نے دوبارہ داغا پھر ان کا ہاتھ سوج گیا، جب سعد بن معاذ رضی الله عنہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے دعا کی: اے اللہ! میری جان اس وقت تک نہ نکالنا جب تک بنو قریظہ (کی ہلاکت اور ذلت سے) میری آنکھ ٹھنڈی نہ ہو جائے، پس ان کی رگ رک گئی اور خون کا ایک قطرہ بھی اس سے نہ ٹپکا، یہاں تک ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1582]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی بنو قریظہ کی عورتیں مسلمانوں کی خدمت کے لیے ان میں تقسیم کردی جائیں۔

2؎:
اس حدیث میں د لیل ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے فیصلہ پر دشمنوں کا راضی ہوجانا اور اس پر اترنا جائز ہے،
اور ان کی بابت جو بھی فیصلہ اس مسلمان کی طرف سے صادر ہوگا دشمنوں کے لیے اس کا ماننا ضروری ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1582