صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
19. بَابُ فَضْلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَحْسِبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَنْ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ} :
باب: ان شہیدوں کی فضیلت جن کے بارے میں ان آیات کا نزول ہوا ”وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل کر دئیے گئے انہیں ہرگز مردہ مت خیال کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں (وہ جنت میں) رزق پاتے رہتے ہیں، ان (نعمتوں) سے بےحد خوش ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہیں اور جو لوگ ان کے بعد والوں میں سے ابھی ان سے نہیں جا ملے ان کی خوشیاں منا رہے ہیں کہ وہ بھی (شہید ہوتے ہی) بے ڈر اور بے غم ہو جائیں گے۔ وہ لوگ خوش ہو رہے ہیں اللہ کے انعام اور فضل پر اور اس پر کہ اللہ ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا“۔
حدیث نمبر: 2815
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: اصْطَبَحَ نَاسٌ الْخَمْرَ يَوْمَ أُحُدٍ، ثُمَّ قُتِلُوا شُهَدَاءَ، فَقِيلَ لِسُفْيَانَ: مِنْ آخِرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ، قَالَ: لَيْسَ هَذَا فِيهِ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا عمرو سے ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ کچھ صحابہ نے جنگ احد کے دن صبح کے وقت شراب پی (راوی حدیث) سے پوچھا گیا کیا اسی دن کے آخری حصے میں (ان کی شہادت ہوئی) تھی جس دن انہوں نے شراب پی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2815  
2815. حضرت جابر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ کچھ لوگوں نے جنگ احد میں صبح کے وقت شراب پی تھی، پھر وہ شہید ہوگئے۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان سے پوچھا گیا: (کیا ان کی شہادت) اسی دن کے آخر میں ہوئی؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ الفاظ حدیث میں مروی نہیں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2815]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اسی دن شام کو شراب پی تھی بلکہ صبح کو پینے کا ذکر ہے‘ جنگ احد جب ہوئی اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔
شہید کی فضیلت اس حدیث سے یوں نکلی کہ اللہ نے جابر ؓکے باپ سے کلام کیا جنہوں نے یہ آرزو کی کہ میں پھر دنیا میں بھیج دیا جاؤں پھر انہوں نے اللہ سے یہ دعا کی کہ میرا حال میرے ساتھیوں کو پہنچا دے۔
اس پر یہ آیت اتری ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًا﴾ (آل عمران: 169)
اس روایت کو ترمذی نے نکالا ہے اور حضرت امام بخاریؒ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس روایت میں ان شہداء سے متعلق شراب نوشی کا ذکر ضمناً آگیا ہے‘ بعد میں شراب کی حرمت نازل ہونے پر جملہ اصحاب نبوی نے شراب کے برتن تک توڑ کر اپنے گھروں سے پھینک دئیے تھے (رضي اللہ عنهم)
۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں مطابقته للترجمة فیه عسر إلا أن یکون مرادہ أن الخمر التي شربواھا یومئذ لم تضرھم لأن اللہ عزوجل التي علیھم بعد موتھم ورفع عنھم الخوف والحزن وإنما کان ذالك لأن کانت یومئذ مباحة (فتح)
یعنی حدیث اور باب میں مطابقت مشکل ہے مگر یہ کہ مراد یہ ہو کہ اس دن ان شہیدوں نے شراب پی تھی جس سے ان کی شہادت میں کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اللہ نے موت کے بعد ان کی تعریف کی اور ان سے خوف و غم کو دور کردیا۔
یہ اس لئے کہ اس دن تک شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے وہ مباح تھی۔
بعد میں حرمت نازل ہو کر وہ قیامت تک کے لئے حرام کردی گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2815   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2815  
2815. حضرت جابر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ کچھ لوگوں نے جنگ احد میں صبح کے وقت شراب پی تھی، پھر وہ شہید ہوگئے۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان سے پوچھا گیا: (کیا ان کی شہادت) اسی دن کے آخر میں ہوئی؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ الفاظ حدیث میں مروی نہیں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2815]
حدیث حاشیہ:

غزوہ اُحدکے موقع پر شراب حرام نہیں ہوئی تھی اور اس کا پینا جائز تھا اس لیے ان شہداء کی شراب نوشی کے باوجود اللہ کے ہاں تعریف کی گئی اور ان سے حزن و ملال اور وحشت و دہشت کا ازالہ کردیا گیا۔

عنوان کے تحت ذکر کردہ آیات کے آخر میں ہے۔
یقیناً اللہ تعالیٰ اہل یمان کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
اگر اللہ تعالیٰ ان کے فعل شراب نوشی پر پکڑ کرتا تو پھر ان کے اعمال ضائع ہو جاتے۔
چونکہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔
اس لیے جائز کام کر لینے پر شہادت کا عمل ضائع نہیں ہوا۔

روایت کے آخر میں راوی حدیث سے ایک سوال پھر اس کا جواب منقول ہے جبکہ ایک روایت میں سوال و جواب کا ذکر نہیں ہے اور نہ اس دن کے آخری حصے میں شہادت واقع ہونے کا ذکر ہی ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث 4044)
ایک روایت میں ہے۔
لوگوں نے صبح کے وقت شراب نوشی کی اور اسی دن کے آخر میں شہید ہو گئے اور یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث 4618)
ممکن ہے کہ سفیان بن عیینہ پہلے ان الفاظ کو بھول گئے ہوں پھر انھیں یاد آگیا ہو۔
(فتح الباري: 40/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2815