صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
24. بَابُ الشَّجَاعَةِ فِي الْحَرْبِ وَالْجُبْنِ:
باب: جنگ کے موقع پر بہادری اور بزدلی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2821
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، أَنَّهُ بَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَّاسُ مَقْفَلَهُ مِنْ حُنَيْنٍ، فَعَلِقَهُ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ، فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَعْطُونِي رِدَائِي لَوْ كَانَ لِي عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمًا لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا، وَلَا كَذُوبًا، وَلَا جَبَانًا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمر بن جبیر بن مطعم نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی کہا کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، آپ کے ساتھ اور بہت سے صحابہ بھی تھے۔ وادی حنین سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ کچھ (بدو) لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔ بالآخر آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک ببول کے کانٹے میں الجھ گئی تو ان لوگوں نے اسے لے لیا (تاکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کچھ عنایت فرمائیں تو چادر واپس کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہو گئے اور فرمایا میری چادر مجھے دے دو ‘ اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ بکریاں ہوتیں تو میں تم میں تقسیم کر دیتا ‘ مجھے تم بخیل نہیں پاؤ گے اور نہ جھوٹا اور نہ بزدل پاؤ گے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2821  
2821. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ غزوہ حنین سے واپس ہوئے۔ لوگوں نے آپ کوگھیر لیا وہ آپ سے کچھ مانگ رہے تھے حتیٰ کہ آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک اس کے کانٹوں سے الجھ گئی تو نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہوکر فرمایا: میری چادر تو مجھے واپس کردو۔ اگر میرے پاس اس (درخت) کے کانٹوں کے برابر بھی اونٹ ہوتے تو میں سب کے سب تم میں تقسیم کردیتا۔ مجھے تو کسی وقت بھی بخیل، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤ گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2821]
حدیث حاشیہ:
یہ اس لیے فرمایا کہ بخیلی کے نتائج میں جھوٹ اور بزدلی اور سخاوت کے نتائج میں صداقت اور بہادری لازم ہیں‘ یہ جنگ حنین سے واپسی کا واقعہ ہے۔
مزید تفصیلات کتاب المغازی میں آئیں گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2821   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2821  
2821. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ غزوہ حنین سے واپس ہوئے۔ لوگوں نے آپ کوگھیر لیا وہ آپ سے کچھ مانگ رہے تھے حتیٰ کہ آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک اس کے کانٹوں سے الجھ گئی تو نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہوکر فرمایا: میری چادر تو مجھے واپس کردو۔ اگر میرے پاس اس (درخت) کے کانٹوں کے برابر بھی اونٹ ہوتے تو میں سب کے سب تم میں تقسیم کردیتا۔ مجھے تو کسی وقت بھی بخیل، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤ گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2821]
حدیث حاشیہ:

بخیل کذوب اور جبان مبالغے کے صیغے ہیں۔
جن سے جنس کی نفی کرنا مقصود ہے۔

اس حدیث میں آپ ﷺکے اخلاق کریمانہ کا بیان ہے۔
اصول اخلاق تین ہیں حلم کرم اور شجاعت۔
اس میں بڑی عمدگی کے ساتھ ان تینوں کو بیان کیا گیا ہے عدم کذب سے قوت عقلیہ کے کمال کی طرف اشارہ ہے جو حکمت و دانائی سے عبارت ہے عدم بخل سے کمال قوت شہویہ کی طرف اشارہ فرمایا جو سخاوت ہے اور عدم جبن سے کمال قوت غضبیہ کی طرف اشارہ کیا جو شجاعت ہے۔
یہ تینوں صفات اعلیٰ اخلاق کی بنیاد ہیں بہر حال رسول اللہ ﷺ بہت بہادر انتہائی سخی اور بہت مدبر و بردبار تھے واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ جنگ حنین کا ہے اور حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک راوی کا نام ہے۔

مال طلب کرنے والے وہ نو مسلم تھے جو ابھی تک آپ کی صحبت سے فیض یاب نہیں ہوئے تھے ورنہ جنھیں آپ کی تربیت میں چند دن گزارنے کا موقع ملا وہ ادب و احترام کا پیکربن گئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2821