صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل -- کتاب: غسل کے احکام و مسائل
18. بَابُ نَفْضِ الْيَدَيْنِ مِنَ الْغُسْلِ عَنِ الْجَنَابَةِ:
باب: اس بارے میں کہ غسل جنابت کے بعد ہاتھوں سے پانی جھاڑ لینا (سنت نبوی ہے)۔
حدیث نمبر: 276
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ، عَنْ سَالِمِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ" وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا فَسَتَرْتُهُ بِثَوْبٍ وَصَبَّ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ فَضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَمَسَحَهَا، ثُمَّ غَسَلَهَا فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَأَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ ثَوْبًا فَلَمْ يَأْخُذْهُ، فَانْطَلَقَ وَهُوَ يَنْفُضُ يَدَيْهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحمزہ (محمد بن میمون) نے، کہا میں نے اعمش سے سنا، انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے، انہوں نے کریب سے، انہوں نے ابن عباس سے، آپ نے کہا کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا اور ایک کپڑے سے پردہ کر دیا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں پانی لیا اور شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر مارا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور بازو دھوئے۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام غسل سے ایک طرف ہو گئے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑا دینا چاہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھوں سے پانی جھاڑنے لگے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 276  
´غسل جنابت کے بعد ہاتھوں سے پانی جھاڑ لینا (سنت نبوی ہے)`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ " وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا فَسَتَرْتُهُ بِثَوْبٍ وَصَبَّ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ فَضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَمَسَحَهَا، ثُمَّ غَسَلَهَا فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَأَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ ثَوْبًا فَلَمْ يَأْخُذْهُ، فَانْطَلَقَ وَهُوَ يَنْفُضُ يَدَيْهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت ہے، آپ نے کہا کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا اور ایک کپڑے سے پردہ کر دیا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں پانی لیا اور شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر مارا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور بازو دھوئے۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام غسل سے ایک طرف ہو گئے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑا دینا چاہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھوں سے پانی جھاڑنے لگے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ نَفْضِ الْيَدَيْنِ مِنَ الْغُسْلِ عَنِ الْجَنَابَةِ:: 276]

تشریح:
باب اور حدیث کی مطابقت ظاہر ہے، معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے کہ وضو اور غسل میں بدن کپڑے سے نہ پونچھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 276   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 274  
´جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا`
«. . . وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا لِجَنَابَةٍ فَأَكْفَأَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ ضَرَبَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ أَوِ الْحَائِطِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَهُ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 274]

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا۔ کیوں کہ ابتداء ہی میں وضو کیا جاتا ہے جب آخری مرتبہ جسم پر پانی ڈال دیا جائے تو دوبارہ وضو کی ضرورت نہیں جیسا کہ حدیث کے متن میں واضح ہے کہ آپ نے پورے جسم پر پانی بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پیر دھوئے اور اس کے بعد دوبارہ وضو نہیں کیا۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں:
«فرض المصنف ان اعادة غسل سائر اعضاء الوضؤ غير لازم والاستدلال بظاهر الحديث» [شرح تراجم ابواب البخاري: ص 112]
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ غسل کے بعد تمام اعضاء وضوء تو دوبارہ دھونا لازم نہیں ہے اور مصنف رحمہ اللہ نے حدیث کے ظاہر سے استدلال فرمایا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کلی اور ناک میں پانی ڈالتے وقت اگر غسل اور وضو کی نیت ہے تو دوبارہ اعضاء کو دھونے پر اختیار ہے، یعنی غسل میں کیا گیا وضو کافی ہو گا۔ جب کہ اس نے دونوں کی نیت کی ہے۔ [المغني۔ ج1۔ ص289]
ہاں البتہ اتنا یاد رکھنا چاہئیے کہ غسل کے دوران شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضو کا اعادہ ضروری ہو گا۔

ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يجب الوضوء إذا مس فرجه فى الغسل»
جب شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضوء لازم ہو جاتا ہے۔ [عارضة الاجوزي، ج1، ص163]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 141   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 245  
´غسل جنابت کے طریقے کا بیان `
«. . . حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا يَغْتَسِلُ بِهِ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ صَبَّ عَلَى فَرْجِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ الْمِنْدِيلَ فَلَمْ يَأْخُذْهُ وَجَعَلَ يَنْفُضُ الْمَاءَ عَنْ جَسَدِهِ . . .»
. . . ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی رکھا، تاکہ آپ غسل کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کو اپنے داہنے ہاتھ پر جھکایا اور اسے دوبار یا تین بار دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر اور جسم پر پانی ڈالا، پھر کچھ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، میں نے بدن پونچھنے کے لیے رومال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا، اور پانی اپنے بدن سے جھاڑنے لگے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: 245]
فوائد و مسائل:
➊ غسل جنابت ہو یا عام غسل، مسنون طریقہ یہی ہے جو ان احادیث میں آیا ہے کہ پہلے استنجا اور زیریں جسم دھویا جائے، بعد ازاں وضو کر کے باقی جسم پر پانی بہایا جائے۔ اس وضو میں سر پر مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت سے پہلے والے وضو میں سر کے مسح کا ذکر نہیں ملتا، صرف تین مرتبہ سر پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔ اسی لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے غسل جنابت سے پہلے وضو میں سر کے مسح کا چھوڑ دینا۔ اس باب کے تحت حدیث میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ سر پر پہنچے، تو اس کا مسح نہیں کیا، بلکہ اس پر پانی بہایا۔ [سنن نسائي حديث: 422]
➋ مختلف احادیث میں وضو کا انداز مختلف نقل ہوا ہے۔ بعض میں پاؤں دھونے کے موقع کا بالکل ذکر نہیں ہے۔ بعض میں صراحت ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد دھوئے اور بعض میں دو دفعہ کا ذکر ہے۔ پہلی دفعہ میں وضو کے ساتھ اور دوسری دفعہ فراغت کے بعد اور ظاہر ہے کہ سب ہی صورتیں جائز ہیں۔
➌ غسل کے بعد تولیہ کا استعمال مباح ہے، نہ کرے تو سنت رسول پر عمل کے ثواب کا امیدوار ہونا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 245   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 418  
´پانی بہانے سے پہلے جنبی کا اپنے اوپر لگی ہوئی گندگی دور کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، البتہ اپنے دونوں پاؤں نہیں دھوئے، اور (وضو سے پہلے) آپ نے اپنی شرمگاہ اور اس پر لگی ہوئی گندگی دھوئی، پھر اپنے جسم پر پانی بہایا، پھر اپنے دونوں پاؤں کو ہٹایا اور انہیں دھویا، یہی (آپ کے) غسل جنابت کا طریقہ تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 418]
418۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں استنجا کرنے سے پہلے وضو کرنے کا بیان ہے۔ یہ بیان میں سہو ہے۔ اگلی روایت سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلے گندگی صاف کی جائے، یعنی استنجا کیا جائے، اس کے بعد نماز پڑھی جائے۔ صرف سر کا مسح نہیں ہو گا۔ اس کی بجائے تین چلو پانی سر میں ڈالا جائے گا اور پاؤں بھی غسل کرنے کے بعد آخر میں دھوئے جائیں گے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ شروع میں بھی دھوئے جاسکتے ہیں جبکہ بعد میں پاؤں کے آلودہ ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے، حدیث 254 اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 418   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 419  
´شرمگاہ دھونے کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے، اور اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر زمین پر اپنا ہاتھ مارتے، پھر اسے ملتے، پھر دھوتے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر اپنے سر اور باقی جسم پر پانی ڈالتے، پھر وہاں سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوتے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 419]
419۔ اردو حاشیہ:
➊ اگرچہ استنجا کرنے سے شرم گاہ کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی صاف ہو جاتا ہے مگر چونکہ ہاتھ افضل جزو ہے۔ نماز، قرأت قرآن اور کھانے پکانے وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اس کی خصوصی صفائی کرنی چاہیے، یعنی اسے مٹی یا صابن وغیرہ سے مل کر اچھی طرح دھویا جائے۔
➋ مٹی نجاست کی بو اور چکناہٹ وغیرہ کو ختم کرتی ہے، اس لیے استنجا کے بعد ہاتھ کو مٹی سے ملنا چاہیے۔ آج کل صابن یہی کام کر سکتا ہے۔ مزید دیکھیے حدیث254 اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 419   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 428  
´غسل میں اعضاء کو ایک ایک بار دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابت کا غسل کیا، تو آپ نے اپنی شرمگاہ کو دھویا، اور زمین یا دیوار پر اپنا ہاتھ رگڑا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر اور پورے جسم پر پانی بہایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 428]
428۔ اردو حاشیہ: غسل جنابت میں شرط یہ ہے کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، خواہ پانی جسم پر ایک دفعہ ڈالا جائے یا زیادہ دفعہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 428   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 254  
´غسل کی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میری خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی لا کر رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار اپنے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کیا تو اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور سے ملا، پھر اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر پر تین لپ بھربھر کر ڈالا، پھر اپنے پورے جسم کو دھویا، پھر آپ اپنی جگہ سے الگ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر میں تولیہ لے کر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 254]
254۔ اردو حاشیہ:
➊ مٹی پر ہاتھ رگڑنا بدبو اور لیس کو ختم کرتا ہے اور آلودگی سے وسوسے کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا استنجے کے بعد یہ مستحب ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرش کچے ہوتے تھے، لہٰذا غسل کا پانی پاؤں میں جمع ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ پاؤں دھونے میں کوئی فائدہ نہ تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے، البتہ اگر پانی جمع نہ ہوتا ہو تو اسی جگہ پاؤں دھوئے جا سکتے ہیں۔
➌ غسل یا وضو کے بعد رومال استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا رومال پیش کرنا، اس کے جواز کی دلیل ہے کہ آپ کے گھر میں رومال تھا۔ باقی رہا آپ کا واپس کرنا تو وہ کسی اور وجہ سے ہو گا، مثلاً: آپ چاہتے ہوں گے کہ پانی کچھ دیر جسم پر رہے تاکہ ٹھنڈک محسوس ہو، وغیرہ۔
➍ رومال پانی کے ساتھ ساتھ میل کچیل کو بھی اچھی طرح صاف کر دیتا ہے اور یہی غسل سے مطلوب ہے، نیز غسل کے بعد پانی کا جسم پر رہنا شرعاً مطلوب نہیں اور یہ رہ بھی نہیں سکتا، ہوا یا کپڑوں سے جلد یا بدیر خشک ہو ہی جائے گا۔
➎ جو شخص ٹب وغیرہ سے چلو بھر کر پانی لینا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی ہتھیلیاں پہلے دھو لے تاکہ پانی آلودہ نہ ہو۔
➏ شرم گاہ دھونے کے لیے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 254   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث467  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کر چکے تو میں آپ کے پاس ایک کپڑا لائی، آپ نے اسے واپس لوٹا دیا اور (بدن سے) پانی جھاڑنے لگے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 467]
اردو حاشہ:
نبیﷺ نے کپڑا اس لیے واپس کردیا کہ اسے ضروری نہ سمجھ لیا جائے تاکہ اس سے امت کے لیے مشکل نہ پیدا ہو، پھر کسی موقع پر ایک آدمی کے لیے بدن پونچھنے کے لیے الگ کپڑا موجود نہ ہوتو وہ حرج محسوس کرے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 467   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:276  
276. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت میمونہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور ایک کپڑے سے پردہ بھی کر دیا۔ پہلے آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دھویا۔ پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر خوب رگڑا اور اسے دھویا۔ اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ اور بازو دھوئے، پھر اپنے سر پر پانی بہایا اور سارے جسم کو دھویا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعدازاں میں نے آپ کو ایک کپڑا دینا چاہا لیکن آپ نے اسے نہیں لیا اور آپ اپنے دونوں ہاتھوں سے پانی جھاڑتے ہوئے چلے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:276]
حدیث حاشیہ:

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ غسل کرنے کے بعد جو پانی بدن پررہ گیا وہ پاک ہے، اگرچہ وہ اس پانی کا بقیہ ہے جس سے جنابت کو دور کیا گیا تھا۔
اگر اس میں کوئی مضائقہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ہاتھوں سے نہ جھاڑتے، کیونکہ ایسا کرنے سے چھینٹے اڑتے ہیں اوران کے کپڑوں پر پڑنے کا بھی اندیشہ بدستور ہے، اس لیے مناسب یہ تھا کہ احتیاط کے ساتھ تولیے وغیرہ سے پانی کو خشک کرلیا جاتا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
معلوم ہواکہ پانی پاک ہے اوراس کے کپڑوں پر لگ جانے میں کوئی نقصان نہیں۔

بعض شراح نے لکھا ہے کہ اس عنوان سے امام بخاری ؒ ایک ضعیف حدیث کی تردید کرنا چاہتے ہیں وضو میں اپنے ہاتھوں کو مت جھاڑو کیونکہ یہ تو شیطان کے پنکھے ہیں اس حدیث کے متعلق امام ابن الصلاح ؒ نے لکھا ہے کہ مجھے اس کا سراغ نہیں مل سکا۔
امام نووی ؒ نے بھی ایسا ہی کہا ہے کہ جبکہ اس حدیث کو امام ابن حبان ؒ نے اپنی تالیف الضعفاء میں اورابن ابی حاتم ؒ نے کتاب العلل میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔
یہ حدیث دواعتبار سے ناقابل حجت ہے۔
۔
بخاری کی صحیح حدیث اس کے معارض ہے۔
یہ سند کے لحاظ سے بھی قابل التفات نہیں۔
(فتح الباري: 471/1)

علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کرکے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ہاتھوں سے پانی کا جھاڑنا جائز ہے۔
اس سے عبادت کے اثرات زائل نہیں ہوتے۔
رسول اللہ ﷺ نے جوتولیہ واپس کیا اس کا ہرگز مقصد یہ نہ تھا کہ غسل کے اثرات باقی رہیں، بلکہ آپ نے کپڑا اس لیے استعمال نہیں فرمایا کہ یہ عیش پرست اور فضول خرچ لوگوں کی عادت ہے جس سے تکبر کی بھی بو آتی ہے۔
(عمدة القاري: 55/3)
اگرغسل کے اثر کو باقی رکھنا مقصود ہوتا تو ہاتھوں سے پانی جھٹکنا بھی درست نہ ہوتا۔

حافظ ا بن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ غسل کے بعد بدن خشک کرنے کے لیے تولیے کا استعمال مکروہ ہے۔
یہ استدالال صحیح نہیں، کیونکہ یہ تو ایک وقتی حالات کا تقاضا تھا جس میں دوسری باتوں کا بھی احتمال ہے، مثلاً ممکن ہے کہ وہ کپڑا ناپاک ہو یا اور کوئی عذر اس کے لینے میں رکاوٹ بنا ہو، یا آپ جلدی میں ہوں، چنانچہ مہلب نے لکھا ہے:
احتمال ہے کہ آپ نے تولیے کا استعمال اس لیے نہ فرمایا ہو کہ پانی کی برکت جسم پر باقی رہے یا تواضع اور انکساری کے پیش نظر اسے ترک فرمایا ہو یا اور کوئی بات اس کپڑے میں دیکھی ہو کہ وہ ریشم کا ہو یا میلا ہو۔
امام احمد اور محدث اسماعیلی کی یہ روایت بھی منقول ہے کہ حضرت نخعی ؒ سے امام اعمش نے تولیے وغیرہ سے بدن صاف کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:
اس میں کوئی حرج نہیں اوررسول اللہ ﷺ نے اس لیے واپس کیا تھا کہ آپ اس کے عادی نہیں ہونا چاہتے تھے۔
حضرت تیمی نے اپنی شرح میں لکھا ہے:
اس حدیث میں دلیل ہے کہ آپ اسے استعمال کرتے تھے۔
اگرآپ کا عمل معروف نہ ہوتا تو حضرت میمونہ ؓ اسے کیوں پیش فرماتیں!ہاتھ سے پانی صا ف کرنا ہی اس کی دلیل ہے کہ تولیہ وغیرہ بھی استعمال ہوسکتا ہے، کیونکہ دونوں طریقوں سے پانی کا صاف کرنا مقصود ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعضائے وضو سے گرنے والا پانی پاک ہے جبکہ بعض غالی احناف اسے نجس کہتے ہیں۔
(فتح الباري: 472/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 276