صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
28. بَابُ الْكَافِرِ يَقْتُلُ الْمُسْلِمَ ثُمَّ يُسْلِمُ فَيُسَدِّدُ بَعْدُ وَيُقْتَلُ:
باب: کافر اگر کفر کی حالت میں مسلمان کو مارے پھر مسلمان ہو جائے، اسلام پر مضبوط رہے اور اللہ کی راہ میں مارا جائے تو اس کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2827
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَنْبَسَةُ بنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِخَيْبَرَ بَعْدَ مَا افْتَتَحُوهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْهِمْ لِي، فَقَالَ: بَعْضُ بَنِي سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ لَا تُسْهِمْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ، فَقَالَ ابْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ: وَاعَجَبًا لِوَبْرٍ تَدَلَّى عَلَيْنَا مِنْ قَدُومِ ضَأْنٍ يَنْعَى عَلَيَّ قَتْلَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَكْرَمَهُ اللَّهُ عَلَى يَدَيَّ، وَلَمْ يُهِنِّي عَلَى يَدَيْهِ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَسْهَمَ لَهُ أَمْ لَمْ يُسْهِمْ لَهُ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَحَدَّثَنِيهِ السَّعِيدِيُّ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:السَّعِيدِيُّ هُوَ عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عنبسہ بن سعید نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں ٹھہرے ہوئے تھے اور خیبر فتح ہو چکا تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرا بھی (مال غنیمت میں) حصہ لگائیے۔ سعید بن العاص کے ایک لڑکے (ابان بن سعید رضی اللہ عنہ) نے کہا یا رسول اللہ! ان کا حصہ نہ لگائیے۔ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ یہ شخص تو ابن قوتل (نعمان بن مالک رضی اللہ عنہ) کا قاتل ہے۔ ابان بن سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کتنی عجیب بات ہے کہ یہ جانور (یعنی ابوہریرہ ابھی تو پہاڑ کی چوٹی سے بکریاں چراتے چراتے یہاں آ گیا ہے اور ایک مسلمان کے قتل کا مجھ پر الزام لگاتا ہے۔ اس کو یہ خبر نہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے (شہادت) عزت دی اور مجھے اس کے ہاتھوں سے ذلیل ہونے سے بچا لیا (اگر اس وقت میں مارا جاتا) تو دوزخی ہوتا ‘ عنبسہ نے بیان کیا کہ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی حصہ لگایا یا نہیں۔ سفیان نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے سعیدی نے اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ سعیدی سے مراد عمرو بن یحییٰ بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2827  
2827. حضرت ابوہریرۃ ؓسےروایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ فتح خیبر کے بعد وہاں تشریف فرماتھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بھی غنیمت سے حصہ دیں تو اس پر سعید بن عاص کے ایک بیٹے (ابان بن سعید ؓ) نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! انھیں مال غنیمت سے کچھ نہ دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: یہ تو ابن قوقل کاقاتل ہے۔ سعید بن عاص کے بیٹے نے کہا: واہ!مجھے اس وبر جیسے پست قد پر تعجب ہے جو ابھی ابھی اس پہاڑ کی چوٹی سے ہمارے پاس آیا ہے اور مجھ پر اس آدمی کی موت کا عیب لگاتا ہے جو مسلمان تھا اور اسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں عزت و تکریم سے نوازا (کہ وہ شہید ہوا) اور مجھے اس کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا (کہ میں اس کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا)۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انھیں حصہ دیا یانہ دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ مجھ سے سعیدی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2827]
حدیث حاشیہ:
روایت میں ابن قوقل سے مراد نعمان بن مالک ابن ثعلبہ بن احرم بن فہر بن غنم صحابی ہیں‘ قوقل ان کے دادا ثعلبہ کا لقب تھا‘ وہ احد کے دن ابان کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔
کہتے ہیں انہوں نے اس دن یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ! سورج ڈوبنے سے پہلے میں جنت کی سیر کروں‘ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی شہید ہوگئے۔
وبر عرب میں بلی سے چھوٹا ایک جانور جس کی دم اور کان چھوٹے ہوتے ہیں۔
قدوم اور ضان جو لفظ آیا ہے بعضوں نے کہا یہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قبیلہ دوس کے قریب تھا حضرت ابوہریرہ ؓ ادھر ہی کے باشندے تھے گویا ابان بن سعید نے حضرت ابوہریرہ ؓ پر یہ طعن کیا‘ ان کے پستہ قد ہونے کو وبر سے تشبیہ دی اور بکریوں کا گڈریا قرار دیتے ہوئے اپنے جرم کا اقرار بھی کیا مگر یہ کہ اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے بعد میں اللہ نے دولت اسلام سے سرفراز کردیا۔
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
والمراد منه ھھنا قول أبان أکرمه اللہ علی یدي ولم بھنی علی یدیه و أراد بذالك أن النعمان استشھد بیر ابان فأکرمه اللہ بالشھادة ولم یقتل أبان علی کفرہ فیدخل النار وھو المراد بالإھانة بل عاش أبان حتی تاب و أسلم وکان إسلامه قبل خیبر بعد الحدبیة وقال ذالك الکلام بحضرة النبي صلی اللہ علیه وسلم وأقرہ علیه وموافق لما تضنمة للعرجمة (فتح الباري)
قول ابان سے یہاں مراد یہ کہ اللہ نے میرے ہاتھ پر ان کو عزت شہادت دی اور ان کے ہاتھوں سے قتل کرا کر مجھ کو ذلیل نہیں کیا‘ جس سے مراد لیا کہ نعمانؓ ابانؓ کے ہاتھ سے شہید ہوئے پس اللہ نے ان کا اکرام فرمایا اور ابان کفر پر نہیں مرا ورنہ دوزخ میں جاتا۔
اللہ نے ان کو حدیبیہ کے بعد اسلام نصیب فرمایا۔
ابان نے یہ باتیں آنحضرتﷺ کے سامنے بیان کیں آپؐ خاموش رہے‘ اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔
آپؐ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کا حصہ نہیں لگایا۔
اس پر حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں واحتج به من قال إن من حضر بعد فراغ الوقعة ولو کان خرج مددا لھم أن لا بشارك من حضرھا وھو قول الجمھور (فتح الباري)
یعنی اس سے دلیل لی اس نے جس نے کہا کہ جو شخص جنگ ہونے کے بعد حاضر ہو اگرچہ وہ مدد کرنے کے ہی لئے آیا ہو‘ اس کو حاضر ہونے والوں کے ساتھ حصوں میں شریک نہیں کیا جائے گا۔
جمہور کا یہی قول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2827   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2827  
2827. حضرت ابوہریرۃ ؓسےروایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ فتح خیبر کے بعد وہاں تشریف فرماتھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بھی غنیمت سے حصہ دیں تو اس پر سعید بن عاص کے ایک بیٹے (ابان بن سعید ؓ) نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! انھیں مال غنیمت سے کچھ نہ دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: یہ تو ابن قوقل کاقاتل ہے۔ سعید بن عاص کے بیٹے نے کہا: واہ!مجھے اس وبر جیسے پست قد پر تعجب ہے جو ابھی ابھی اس پہاڑ کی چوٹی سے ہمارے پاس آیا ہے اور مجھ پر اس آدمی کی موت کا عیب لگاتا ہے جو مسلمان تھا اور اسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں عزت و تکریم سے نوازا (کہ وہ شہید ہوا) اور مجھے اس کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا (کہ میں اس کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا)۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انھیں حصہ دیا یانہ دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ مجھ سے سعیدی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2827]
حدیث حاشیہ:

ابن قوتل کا نام نعمان بن مالک ہے۔
وہ میدان اُحد میں ابان بن سعید کے ہاتھوں شہید ہوئے تھےانھوں نےمیدان اُحد میں دعا کی تھی اےاللہ! غروب آفتاب سے پہلے جنت کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور سورج غروب ہونے پہلے ہی شہید ہو گئے ابان بن سعید اس وقت کافر تھے پھر غزوہ احد کے بعد حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہو گئے۔

امام بخاری ؒنے اس سے ثابت کیا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جنت کے حقدار ہو سکتے ہیں جیسا کہ مذکورہ واقعے سے ظاہر ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر گناہ سے کوئی انسان توبہ کرلے تو پہلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
پھر اسے اس گناہ کے باعث شرمندہ کرنا درست نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2827