سنن ترمذي
كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
63. باب مَا جَاءَ فِي الإِحْسَانِ وَالْعَفْوِ
باب: احسان اور عفو و درگزر کا بیان۔
حدیث نمبر: 2006
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ أَمُرُّ بِهِ فَلَا يَقْرِينِي وَلَا يُضَيِّفُنِي، فَيَمُرُّ بِي أَفَأُجْزِيهِ، قَالَ: " لَا، اقْرِهِ "، قَالَ: وَرَآَّنِي رَثَّ الثِّيَابِ، فَقَالَ: " هَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ؟ " قُلْتُ: مِنْ كُلِّ الْمَالِ قَدْ أَعْطَانِيَ اللَّهُ مِنَ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ، قَالَ: " فَلْيُرَ عَلَيْكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْأَحْوَصِ اسْمُهُ عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ نَضْلَةَ الْجُشَمِيُّ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: اقْرِهِ: أَضِفْهُ، وَالْقِرَى هُوَ الضِّيَافَةُ.
مالک بن نضلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک ایسا آدمی ہے جس کے پاس سے میں گزرتا ہوں تو میری ضیافت نہیں کرتا اور وہ بھی کبھی کبھی میرے پاس سے گزرتا ہے، کیا میں اس سے بدلہ لوں؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: نہیں، (بلکہ) اس کی ضیافت کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن پر پرانے کپڑے دیکھے تو پوچھا، تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال اونٹ اور بکری عطاء کی ہے، آپ نے فرمایا: تمہارے اوپر اس مال کا اثر نظر آنا چاہیئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- «اقْرِهِ» کا معنی ہے تم اس کی ضیافت کرو «قری» ضیافت کو کہتے ہیں،
۳- اس باب میں عائشہ، جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- ابوالاحوص کا نام عوف بن مالک نضلہ جشمی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن ابی داود/ اللباس 17 (4063)، سنن النسائی/الزینة 54 (5239)، و 82 (5309) (تحفة الأشراف: 11206)، و مسند احمد (3/473-474) و (4/137) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی بدلہ کے طور پر میں بھی اس کی میزبانی اور ضیافت نہ کروں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (75) ، الصحيحة (1320)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2006  
´احسان اور عفو و درگزر کا بیان۔`
مالک بن نضلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک ایسا آدمی ہے جس کے پاس سے میں گزرتا ہوں تو میری ضیافت نہیں کرتا اور وہ بھی کبھی کبھی میرے پاس سے گزرتا ہے، کیا میں اس سے بدلہ لوں؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: نہیں، (بلکہ) اس کی ضیافت کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن پر پرانے کپڑے دیکھے تو پوچھا، تمہارے پاس مال و دولت ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال اونٹ اور بکری عطاء کی ہے، آپ نے فرمایا: تمہارے اوپر اس مال کا اثر نظر آنا چاہیئے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2006]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
یعنی بدلہ کے طورپر میں بھی اس کی میزبانی اور ضیافت نہ کروں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2006   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4063  
´کپڑے دھونے کا اور پرانے کپڑوں کا بیان۔`
مالک بن نضلۃ الجشمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم مالدار ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس قسم کا مال ہے؟ تو انہوں نے کہا: اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازا ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4063]
فوائد ومسائل:
مستحب ہے کہ انسان اپنی حیثیت کے مطابق مناسب لباس وغیرہ استعمال کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے، مگر لازم ہے کہ بہت زیادہ مال داری کا اظہار بھی نہ ہو کیونکہ اس طرح دیگر مسلمانوں میں حسرت اور محرومی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں جو ناپسندیدہ امر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4063