صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
46. بَابُ اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ:
باب: گھوڑوں اور گدھوں کا نام رکھنا۔
حدیث نمبر: 2856
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ يَحْيَى بْنَ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ، يُقَالُ لَهُ: عُفَيْرٌ، فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ، قَالَ: لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے یحییٰ بن آدم سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالحوص نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے عمرو بن میمون نے اور ان سے معاذ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس گدھے پر سوار تھے، میں اس پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اس گدھے کا نام عفیر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اللہ اسے عذاب نہ دے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت نہ دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ وہ خالی اعتماد کر بیٹھیں گے۔ (اور نیک اعمال سے غافل ہو جائیں گے)۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 24  
´اللہ تعالیٰ اور بندوں کا ایک دوسرے پر حق`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن معَاذ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم على حمَار يُقَال لَهُ عفير فَقَالَ يَا معَاذ هَل تَدْرِي حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرُهُمْ فَيَتَّكِلُوا . . .»
. . . سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار تھے میں بھی آپ کے پیچھے اسی گدھے پر بیٹھا تھا، میرے اور آپ کے درمیان صرف کجاوہ کے پچھلی لکڑی کے سوا اور کسی چیز کا فاصلہ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اس کو ایک جانیں اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ سمجھیں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اس کو عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو یہ خوشخبری لوگوں کو سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خوشخبری نہ سناؤ لوگ اسی پر بھروسہ کر لیں گے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 24]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 2856]،
[صحیح مسلم 144،145]

فقہ الحدیث
➊ صرف اللہ ہی کی عبادت کرنا اور ہر قسم کے شرک سے مکمل اجتناب انتہائی اہم مسئلہ اور بنیادی عقیدہ ہے۔ اس عظیم الشان عقیدے پر اہل توحید ساری زندگی ثابت قدم رہتے ہیں اور ہر وقت کٹ مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
➋ اللہ تعالیٰ کا اہل توحید سے یہ وعدہ ہے وہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ اگر بعض موحدین کو ان کے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں داخل کیا گیا تو بعد میں ایک دن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں جہنم سے نکال کر ابدی جنت میں داخل فرمائے گا۔
➌ ہر انسان کو چاہئے کہ اپنے سے افضل انسان کا کماحقہ احترام کرے۔ تمام معاملات میں اپنے آپ کو اس سے برتر ثابت کرنے کے بجائے، اسے اپنے آپ پر ترجیح دے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سواری پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس سے یہ بھی واضع ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر، چاہے وہ عوام میں سے ہو یا طلباء میں سے، یہ لازم ہے کہ علمائے حق کا احترام و ادب کرے۔
➍ اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ لوگ نیک اعمال کرنا چھوڑ دیں۔ اسی وجہ سے اسے عوام الناس کے سامنے بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ لوگوں کی غلط فہمی، فتنے اور دیگر مضر اثرات کے خوف کی وجہ سے بعض نصوص صحیحہ کا عام لوگوں کے سامنے بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور اگر بیان کیا جائے تو ان کی صحیح تشریح اور مفہوم بھی سمجھا دینا چاہئے۔
➎ اللہ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی عبادت کی جائے۔ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تمام احکامات پر عمل کیا جائے۔ اگر اعمال صالحہ کو ترک کر کے اور کتاب و سنت سے ہٹ کر کوئی عبادت کی جائے تو اللہ کے ہاں اس کا کوئی وزن نہیں ہے، جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
➏ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے باوجود یہ حدیث کیوں بیان کی تھی؟
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت گناہ کے خوف سے یہ حدیث بیان فرما دی تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كتم علماً تلجم بلجام من نار يوم القيامة»
جو شخص علم چھپائے گا اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 95، الموارد: 95]
علماء کرام نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث چند خاص لوگوں کے سامنے بیان کی تھی، اور حدیث میں ممانعت عام لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی ہے، یا یہ کہ ممانعت تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 24   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4296  
´روز قیامت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید۔`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گزرے اور میں ایک گدھے پر سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جب وہ ایسا کریں تو وہ ان کو عذاب نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4296]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے۔
کہ اس موقع پر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی آپ کے گدھے پر سوار تھے۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، باب اسم الفرس والحمار، حدیث 2856)

(2)
اللہ تعالیٰ بندوں کا خالق اور منعم ہے۔
اس لئے بندوں کالازمی فرض ہے۔
کہ صرف اسی کی عبادت کریں۔

(3)
اللہ کے ذمے قطعاً کسی کا کوئی حق نہیں۔
اللہ نے بندوں کا جو حق اپنے ذمے لیا ہے تو اس کے ذمے اس کے بندوں کا یہ حق محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے یہ حق اللہ نے خود اپنی رحمت سے اپنے ذمے لے لیا ہے۔

(4)
شرک نہ کرنے والے کو عذاب نہ دینے سے مراد دائمی عذاب نہ دینا ہے ورنہ دوسرے گناہوں کی سزا قبر میں قیامت کے دن اور جہنم میں ملےگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4296   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2856  
2856. حضرت معاذ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے پیچھے گدھے پر سوار تھا اور اس گدھے کا نام عفیرتھا۔ آپ نے فرمایا: اے معاذ! اور کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے؟ اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو کوئی اس کا شریک نہ ٹھہرائے اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ (خالی) تو کل کرکے بیٹھ رہیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2856]
حدیث حاشیہ:
یہاں گدھے کا نام عفیر مذکور ہے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
حدیث ہذا سے شرک کی انتہائی مذمت اور توحید کی انتہائی خوبی بھی ثابت ہوئی۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں مذکور ہے کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے جو شخص بحالت شرک دنیا سے چلا گیا‘ اس کے لئے جنت قطعاً حرام ہے۔
وہ ہمیشہ کے لئے نار دوزخ میں جلتا رہے گا۔
صد افسوس کہ کتنے نام نہاد مسلمان ہیں جو قرآن مجید پڑھنے کے باوجود اندھے ہو کر شرکیہ کاموں میں گرفتار ہیں بلکہ بت پرستوں سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں۔
جو قبروں میں دفن شدہ بزرگوں سے حاجات طلب کرتے‘ دور دراز سے ان کی دہائی دیتے اور ان کے ناموں کی نذر نیاز کرتے ہیں اور ایسے ایسے غلط اعتقادات بزرگوں کے بارے میں رکھتے ہیں جو اعتقاد کھلے ہوئے شرکیہ اعتقادہیں اور جو بت پرستوں کو ہی زیب دیتے ہیں مگر نام نہاد مسلمانوں نے اسلام کو برباد کردیا ہے ھداھم اللہ إلی صراط مستقیم توحید و شرک کی تفصیلات کے لئے تقویۃ الایمان کا مطالعہ نہایت اہم اور ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2856