سنن ترمذي
كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم -- کتاب: طب (علاج و معالجہ) کے احکام و مسائل
21. باب مَا جَاءَ فِي الرُّقَى وَالأَدْوِيَةِ
باب: جھاڑ پھونک اور دوا سے علاج کا بیان۔
حدیث نمبر: 2065
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا: هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا؟ قَالَ: " هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ! "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! جس دم سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، جس دوا سے علاج کرتے ہیں اور جن بچاؤ کی چیزوں سے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں (ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟) کیا یہ اللہ کی تقدیر میں کچھ تبدیلی کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ سب بھی اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر ہی کا حصہ ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 1 (3437) (تحفة الأشراف: 11898) (ضعیف) (اس کی سند میں اضطراب ہے۔یعنی ”أبوخزامة، عن أبيه“ یا ”ابن أبي خزامة، عن أبيه“ نیز ابو خزامہ تابعی ہیں یا صحابی؟، اگر ”ابو خزامہ“ تابعی ہیں تو ان کا حال معلوم نہیں، اگر یہ صحابی ہیں تو ان کے بیٹے ”ابن أبی خزمہ“ ہیں، تراجع الالبانی 344)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ان کی توفیق حسب تقدیر الٰہی ہوتی ہے، اس لیے اسباب کو اپنانا چاہیئے، لیکن یہ اعتقاد نہ ہو کہ ان سے تقدیر بدل جاتی ہے، کیونکہ اللہ اپنے فیصلہ کو نہیں بدلتا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3437) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (749) ، وسيأتي برقم (379 / 2252) //
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 97  
´انسان کو وہی توفیق ہے جس کے لیے پیدا کیا گیا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن أبي خزامة عَن أَبِيه قَالَ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا قَالَ: «هِيَ مِنْ قَدَرِ الله» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه . . .»
. . . سیدنا ابوخزامہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ فرمائیے جو ہم منتر جنتر کرتے، کرواتے ہیں اور علاج معالجہ کرتے ہیں اور جو ہم بچاؤ کی چیزیں رکھتے ہیں (جیسے سامان جنگ، بندوق، تیر و کمان، ڈھال وغیرہ) تو یہ سب چیزیں اللہ کی تقدیر کو پھیر سکتی ہیں، اور اللہ کا حکم لوٹا سکتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چیزیں بھی اللہ کی تقدیر سے ہیں۔ اس حدیث کو احمد ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 97]

تخریج:
[سنن ترمذي 2065]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
ابوخزامہ کو امام ترمذی کے علاوہ کسی نے بھی ثقہ نہیں قرار دیا، چونکہ امام ترمذی تصحیح و تحسین میں متساہل تھے، لہٰذا جب تک کوئی دوسرے معتبر محدث ان کی تائید نہ کریں تو راوی مجہول یا مجروح ہی رہتا ہے۔ صورت مذکورہ میں ابوخزامہ مجہول الحال راوی ہے اور صحابی نہیں ہے۔ اگر اس روایت کو صحیح ثابت کر دیا جائے تو پھر یہ اہل سنت کی دلیل ہے کہ عقیدہ تقدیر برحق ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 97   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2065  
´جھاڑ پھونک اور دوا سے علاج کا بیان۔`
ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! جس دم سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، جس دوا سے علاج کرتے ہیں اور جن بچاؤ کی چیزوں سے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں (ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟) کیا یہ اللہ کی تقدیر میں کچھ تبدیلی کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ سب بھی اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر ہی کا حصہ ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2065]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان کی توفیق حسب تقدیر الٰہی ہوتی ہے،
اس لیے اسباب کو اپنانا چاہیے،
لیکن یہ اعتقاد نہ ہو کہ ان سے تقدیر بدل جاتی ہے،
کیوں کہ اللہ اپنے فیصلہ کو نہیں بدلتا۔

نوٹ:
(اس کی سند میں اضطراب ہے۔
یعنی أبوخزامة،
عن أبيه یا ابن أبي خزامة،
عن أبيه نیز ابوخزامہ تابعی ہیں یا صحابی؟،
اگر ابوخزامہ تابعی ہیں تو ان کا حال معلوم نہیں،
اگر یہ صحابی ہیں تو ان کے بیٹے ابن أبی خزمہ ہیں،
تراجع الألبانی 344)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2065   
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ، عَنْ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ ابْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا أَصَحُّ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- دونوں روایتیں سفیان ابن عیینہ سے مروی ہیں، ان کے بعض شاگردوں نے سند میں «عن أبي خزامة، عن أبيه» کہا ہے اور بعض نے «عن ابن أبي خزامة، عن أبيه» کہا ہے، ابن عیینہ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اسے «عن الزهري، عن أبي خزامة، عن أبيه» روایت کی ہے، یہ زیادہ صحیح ہے،
۳- ہم اس روایت کے علاوہ ابوخزامہ سے ان کی دوسری کوئی روایت نہیں جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3437) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (749) ، وسيأتي برقم (379 / 2252) //