صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل -- کتاب: غسل کے احکام و مسائل
21. بَابُ التَّسَتُّرِ فِي الْغُسْلِ عِنْدَ النَّاسِ:
باب: اس بیان میں کہ لوگوں میں نہاتے وقت پردہ کرنا ضروری ہے۔
حدیث نمبر: 280
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ:" ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ تَسْتُرُهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے روایت کی۔ انہوں نے امام مالک سے، انہوں نے عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابونضر سے کہ ام ہانی بنت ابی طالب کے مولیٰ ابومرہ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے ام ہانی بنت ابی طالب کو یہ کہتے سنا کہ میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ غسل فرما رہے ہیں اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کر رکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں ام ہانی ہوں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 415  
´آٹا لگے ہوئے برتن میں پانی بھر کر غسل کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ ایک ٹب سے غسل کر رہے تھے جس میں گندھا ہوا آٹا لگا تھا، اور آپ کو (فاطمہ رضی اللہ عنہا ۱؎) کپڑا سے پردہ کیے ہوئے تھیں، تو جب آپ غسل کر چکے، تو آپ نے چاشت کی نماز پڑھی، اور میں نہیں جان سکی کہ آپ نے کتنی رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 415]
415۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت کے الفاظ: «فَمَا أَدْرِي كَمْ صَلَّى» میں نہیں جانتی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ شاذ ہیں، اگرچہ محقق کتاب نے ساری روایت ہی کو حسن قرار دیا ہے۔ تاہم درست اور صحیح بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایت کے مطابق خود ام ہانی نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی تھی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی الفاظ کو سنن نسائی میں شاذ قرار دیا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث226 اور اس فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 415   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 226  
´غسل کرتے وقت پردہ کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں غسل کرتے ہوئے ملے، فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے سے آڑ کیے ہوئے تھیں، (ام ہانی کہتی ہیں) میں نے سلام کیا ۱؎، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ام ہانی ہوں، تو جب آپ غسل سے فارغ ہوئے، تو کھڑے ہوئے اور ایک ہی کپڑے میں جسے آپ لپیٹے ہوئے تھے آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 226]
226۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں۔
➋ یہ آٹھ رکعت نماز صلاۃ ضحیٰ (چاشت کی نماز) تھی۔
➌ ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس سے کندھوں سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک جسم ڈھانپ لیا جائے، باقی جسم ننگا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
➍ غسل کرنے والا حسب ضرورت کلام کر سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 226   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث465  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہانے کا ارادہ کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ پر پردہ کئے رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا کر اپنا کپڑا لیا، اور اسے اپنے جسم پر لپیٹ لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 465]
اردو حاشہ:
(1)
پانی کی طرف جانے کا مفہوم یہ ہے کہ گھر میں ایک طرف برتن میں نہانے کے لیے پانی رکھا گیا اور آپﷺ نہانے کے لیےتشریف لے گئے۔

(2)
نہاتے وقت جسم پر چھوٹا کپڑا موجود ہو تب بھی مزید پردہ کرنا یا غسل خانے میں کپڑا پہن کر نہانا افضل ہے تاہم اگر پردے میں نہاتے وقت جسم پر کوئی کپڑا نہ ہو تب بھی جائز ہے۔

(3)
نہانے کے بعد جب کپڑا جسم سے لپیٹا جائے تو وہ جسم پر موجود قطرات کو جذب کرلیتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے یا تولیے سے جسم خشک کرنا جائز ہے۔
اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 465   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1290  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز آٹھ رکعت پڑھی، آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ احمد بن صالح کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا۔ ابن سرح کی روایت میں ہے کہ ام ہانی کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس میں انہوں نے چاشت کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے، باقی روایت ابن صالح کی روایت کے ہم معنی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1290]
1290. اردو حاشیہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کی ہے، مطلب یہ ہے کہ روایت تو صحیح ہے کیونکہ بخاری و مسلم میں یہ روایت موجود ہے، لیکن ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ الفاظ منکر ہیں اور اس کی وجہ سے روایت ضعیف ہے، ورنہ اصل واقعہ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:280  
280. حضرت ام ہانی بنت ابی طالب‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے آپ کو پردہ کر رکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: یہ کون (خاتون) ہیں؟ میں نے خود عرض کیا: میں ام ہانی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:280]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے پہلے باب میں تنہا اورالگ غسل کرنے کا حکم بتایا تھا، اس باب میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر دوسروں کی موجودگی میں غسل کی حاجت ہو تو تستر(پردہ کرنا)
ضروری ہے۔
یا پردہ ہونے کی قدرت کے باجود برہنہ غسل کرنا حرام ہے۔
شاہ ولی اللہ ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ دوسروں کی موجودگی میں غسل کرنا ہو تو آڑ اور پردہ کرکے غسل کرنا چاہیے۔
الغرض تستر تو فضا میں بھی مطلوب ہے، اگرچہ کپڑے سے یا کم از کم کسی آڑ ہی سے ہو، ہاں اگر وہاں کسی کے گزرنے کا اندیشہ نہ ہوتوتستر کے بغیر غسل جائز ہے۔
اسی طرح غسل خانہ اورحمام میں بھی برہنہ غسل کرنا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے دوروایات پیش کی ہیں:
حدیث میمونہ تو متعدد مرتبہ پہلے آچکی ہے۔
حدیث ام ہانی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن فتح سے فراغت کے بعد حضرت ام ہانی ؓ کے مکان پر تشریف لے گئے، ان کا مکان مکے سے باہر تھا، حضرت فاطمہ ؓ نے پردہ کیا اورآپ نے غسل فرمایا۔
دوران غسل میں حضرت ام ہانی وہاں پہنچیں تو آپ نے دریافت فرمایا:
کون عورت ہے؟ یہ معلوم تھا کہ کوئی مرد زنانے مکان میں نہیں آ سکتا، اس لیے فرمایا کہ کون عورت ہے؟ یہ معلوم تھا کہ کوئی مرد زنانے مکان میں نہیں آسکتا، اس لیے فرمایا کہ کون عورت ہے؟ اس روایت سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی موجودگی میں غسل کے لیے پردہ کرنا ضروری ہے۔

علامہ عینی نے لکھا ہےکہ مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غسل کے وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوناضروری ہے، لہذا جس طرح ایک شخص اپنے قابل ستر جسم کو دوسروں کے سامنے بلاوجہ ظاہر نہیں کر سکتا، اسی طرح دوسروں کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ قابل سترجسم کو بلاضرورت دیکھیں۔
پھر اس امر پر بھی اجماع ہے کہ مرد اپنی بیوی کا اوربیوی اپنے شوہر کا قابل ستر جسم دیکھ سکتی ہے۔
علامہ نووی نے لکھا ہے کہ ایک شخص اپنی محرم عورتوں کی موجودگی میں غسل کرسکتا ہے، بشرطیکہ درمیان میں پردہ حائل ہو۔
(عمدۃ القاري: 65/3)

لوگوں کے سامنے نہاتے وقت ایک اور بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ صرف کپڑا باندھ کر نہانے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ لوگوں کی نگاہوں سے بھی پردہ کرے، جیساکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ برہنہ تو غسل نہیں کررہے تھے، بلکہ کپڑا وغیرہ باندھ کر غسل فرمارہے ہوں گے، اس کے باوجود حضرت فاطمہ ؓ آڑ کیے ہوئے تھیں، وہ بقیہ بدن کے لیے تھی۔
اگرچہ اس کا تستر ضروری نہ تھا، تاہم اس آڑ کا بھی اہتمام کیا۔
وھوالمقصود۔

حدیث میمونہ ؓ میں ہے کہ وہ حدیث غسل میں رسول اللہ ﷺ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔
امام اعمش سے یہ الفاظ بیان کرنے میں سفیان اکیلے نہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس کے لیے متابعت بیان فرمائی ہے کہ ان الفاظ کو امام اعمش سے ابوعوانہ الوضاح البصری بھی بیان کرتے ہیں، جسے خود امام بخاری ؒ نے حدیث رقم (266)
میں نقل فرمایا ہے۔
اور محمد بن فضیل نے بھی یہ الفاظ اعمش سے بیان کیے ہیں، جیسا کہ صحیح ابوالاعوانہ الاسفرائنی میں ہے۔
(فتح الباري: 503/1)
امام بخاری ؒ نے یہاں صرف دو متابعات کا حوالہ دیا ہے جن میں پردہ کرنے کا ذکر ہے، البتہ ایک تیسری متابعت بھی ہے، جسے امام اعمش سے ابوحمزہ نے بیان کیا ہے، اس میں بھی پردہ کرنے کی صراحت ہے۔
اسے بھی امام بخاری ؒ نے ہی بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 276)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 280