صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
55. بَابُ الْفَرَسِ الْقَطُوفِ:
باب: سست رفتار گھوڑے پر سوار ہونا۔
حدیث نمبر: 2867
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَزِعُوا مَرَّةً فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ كَانَ يَقْطِفُ، أَوْ كَانَ فِيهِ قِطَافٌ فَلَمَّا رَجَعَ، قَالَ:" وَجَدْنَا فَرَسَكُمْ هَذَا بَحْرًا، فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ لَا يُجَارَى".
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ (رات میں) اہل مدینہ کو دشمن کا خطرہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے (مندوب) پر سوار ہوئے، گھوڑا سست رفتار تھا یا (راوی نے یوں کہا کہ) اس کی رفتار میں سستی تھی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو فرمایا کہ ہم نے تو تمہارے اس گھوڑے کو دریا پایا (یہ بڑا ہی تیز رفتار ہے) چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2772  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں میں سب سے ممتاز تھے۔

(2)
مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہوتو ہر مسلمان کو اس کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار ہونا چاہیے۔

(3)
گھوڑے پر زین وغیرہ ڈالے بغیر سوار ہونا چاہیے جو عوام کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔

(5)
کسی کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سے ساتھیوں اور ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے البتہ بے موقع تعریف جس سے فخر وتکبر کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور خوشامد ممنوع ہے۔

(6)
رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ سے کثیر مواقع پر حاصل ہونے والی برکت رسول اللہﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1685  
´گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1685]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1685   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4988  
´الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4988]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہﷺ نے گھوڑے کی سبک رفتاری کو اس کے سمندر ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
تو اس سے محدث رحمتہ اللہ کا استد لال یہ ہے کہ اگر اندھیرے کی نسبت سے عشاء کی نماز کو کبھی عتمہ یاسوتے کی نماز کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
2) صاحب ایمان کو جری اور بہادر ہوناچاہئےاور اپنے معاشرے میں عام اصلاحی کاموں میں سب سے آگے ہونا چاہئےجیسے رسول اللہﷺ تھے۔
3) کبھی کبھار عام استعمال کی چیزیں عاریتا لے لینےمیں کوئی قباحت نہیں ہےاور مسلمانوں کو اس سلسلے میں بخیل نہیں ہونا چاہئے لیکن عاریتا لینے والے کوبھی چاہئے کہ فراغت کے بعد اس چیز کو پوری ذمے داری کےساتھ واپس کردے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4988   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2867  
2867. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ کو کوئی خطرہ محسوس ہوا تو نبی ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ وہ گھوڑا سست رفتار تھا یا اس کی رفتار میں سستی تھی۔ پھر جب آپ واپس آئے تو فرمایا: ہم نے تو آپ کے اس گھوڑے کو (روانی میں) دریا جیسا پایا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2867]
حدیث حاشیہ:
یہ گھوڑا بے حد سست رفتار تھا لیکن آنحضرتﷺ کی سواری کی برکت سے ایسا تیز اور چالاک ہوگیا کہ کوئی گھوڑا اس کے برابر نہیں چل سکتا تھا۔
آپ اس سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے‘ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔
آنحضرتﷺ نے یہ اقدام فرما کر آئندہ آنے والے خلفائے اسلام کے لئے ایک مثال قائم فرمائی تاکہ وہ سست الوجود بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ہر موقع پر بہادری و جرات و مقابلہ میں عوام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2867   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2867  
2867. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ کو کوئی خطرہ محسوس ہوا تو نبی ﷺ حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ وہ گھوڑا سست رفتار تھا یا اس کی رفتار میں سستی تھی۔ پھر جب آپ واپس آئے تو فرمایا: ہم نے تو آپ کے اس گھوڑے کو (روانی میں) دریا جیسا پایا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2867]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابو طلحہ ؓ کا یہ مندوب نامی گھوڑا انتہائی سست رفتار تھا رسول اللہ ﷺ کی برکت سے وہ ایسا تیز رفتار ہوا کہ کوئی گھوڑا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے یہ اقدام فرما کر آئندہ آنے والے اپنے ورثاء کے لیے ایک مثال قائم کر دی کہ وہ ہر موقع پر جرات اور بہادری کا مظاہرہ کریں اور کسی وقت بھی عوام الناس سے پیچھے نہ رہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2867