سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
7. باب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ
باب: مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2167
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ، عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ هُمْ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ: مَنِ الْجَمَاعَةُ؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ جَمَاعَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ، وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا، وَإِنَّمَا قَالَ هَذَا فِي حَيَاتِهِ عِنْدَنَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداؤد طیالسی، ابوعامر عقدی اور کئی اہل علم نے روایت کی ہے،
۳- اہل علم کے نزدیک جماعت سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اور اصحاب حدیث ہیں،
۴- علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر و عمر، ان سے کہا گیا: ابوبکر و عمر تو وفات پا گئے، انہوں نے کہا: فلاں اور فلاں، ان سے کہا گیا: فلاں اور فلاں بھی تو وفات پا چکے ہیں تو عبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎،
۵- ابوحمزہ کا نام محمد بن میمون ہے، وہ صالح اور نیک شیخ تھے، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7188) (صحیح) (سند میں ”سلیمان مدنی“ ضعیف ہیں، لیکن ”من شذ شذ إلى النار“ کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے ظلال الجنة رقم: 80)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اگر ایک آدمی بھی صحیح عقیدہ و منہج پر ہو تو وہ اکیلے بھی جماعت ہے، اصل معیار صحیح عقیدہ و منہج پر ہونا ہے، نہ کہ بڑی تعداد میں ہونا، اس لیے تقلید کے شیدائیوں کا یہ کہنا کہ تقلید پر امت کی اکثریت متفق ہے، اس لیے مقلدین ہی سواد اعظم ہیں، سراسر مغالطہٰ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 173  
´جماعت کی اہمیت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ عَلَى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ وَمَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّار ". . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ یا یوں فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر نہیں جمع کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے جو جماعت سے الگ ہوا وہ آگ میں تنہا ڈالا جائے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 173]

تحقیق الحدیث
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
اس روایت کی سند میں ایک راوی سلیمان بن سفیان المدنی ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 2563]
ابن معین، علی بن المدینی، ابوحاتم الرازی اور نسائی وغیرھم جمہور نے اس پر جرح کی ہے۔

فائدہ:
حاکم نیشا بوری نے کہا:
«حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ بَالَوَيْهِ، ثنا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ ابْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ وَكَانَ يُسَمَّى قُرَيْشَ الْيَمَنِ وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ [المستدرك ج 1 ص116 ح399 وسنده صحيح، ورواه الترمذي: 2166 مختصرا]
* المستدرک کے مطبوعہ نسخے میں «قالت» ہے (!) جس کی اصلاح [اتحاف المهرة 7؍297 ح7848]
اور مستدرک کے مخطوط مصور یعنی قلمی نسخے [ج1 ص50، 49] سے کر دی ہے۔ «والحمد لله»
◄ اس حدیث میں طاؤس، عبداللہ بن طاؤس، عبدالرزاق بن ہمام اور عباس بن عبدالعظیم مشہور ثقہ راوی ہیں جن کے حالات تقریب التہذیب وغیرہ میں موجود ہیں۔
◄ ابراہیم بن میمون الصنعانی العدنی کو امام ابن معین اور حافظ ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [الجرح و التعديل 2 135، 136 وسنده صحيح و ثقات ابن حبان 64/8]
◄ حافظ ابن حجر نے کہا: «ثقه» [تقريب التهذيب: 262]
◄ موسی بن ہارون البز از مشہور ثقہ امام تھے۔ دیکھئے: [سير اعلام النبلاء 12 116، 117]
◄ محمد بن أحمد بن بالویہ الجلاب النیسابوری رحمہ اللہ کی حدیث کو حاکم نے صحیح کہا۔ دیکھئے: [المستدرك 240/2، 241 ح2946، وقال: صدوق 211/1ح 765]
◄ حافظ ذہبی نے انہیں اعیان محدثین اور اپنے علاقے کے رؤساء میں ذکر کیا۔ دیکھئے: [تاريخ الاسلام 194/25]
آپ 340ھ میں فوت ہوئے۔
◄ نیز دیکھئے: تاریخ نیشاپورطبقتہ شیوخ الحاکم [ص342 فقره: 552]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ امت محمدیہ (علی صاحبھا الصلوة والسلام) کا اجماع شرعی حجت ہے۔
◄ اگر کوئی کہے: امت کے اجماع سے مراد یہ ہے کہ جب قیامت کے دن ساری امت اکٹھی ہو گی تو اس کا اجماع ہے۔! اس کا جواب یہ ہے کہ پھر اس اجماع کا کیا فائدہ ہے؟ دوسرے یہ کہ اس قائل کے قول سے معلوم ہوا کہ اس کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ دنیا میں کسی دور میں بھی امت گمراہی پر جمع ہو جائے۔! حالانکہ اس بات کا تصور بھی باطل ہے۔

فائدہ :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ سے معلوم ہوا کہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کو بہت سی جماعتیں بنا کر مختلف پارٹیوں، فرقوں، کاغذی تنظیموں اور ٹکڑیوں میں تقسیم ہو جانا جائز ہے۔
◄ عرض ہے کہ اس حدیث کا یہ مفہوم بالکل غلط ہے۔ اس سے مراد صرف تین باتیں ہیں:
➊ اجماع حجت ہے۔
➋ کتاب و سنت اور اجماع کے مطابق صحیح خلافت اور خلیفہ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
➌ نماز باجماعت پڑھنی چاہئیے۔
یہی وہ مفہوم ہے جو سلف صالحین سے ثابت ہے، جبکہ پارٹیوں، مروجہ تنظیموں اور کاغذی جماعتوں کا وجود «وَلَا تَفَرَّقُوا» اور «وَلَا تَخْتَلِفُوا» کی رو سے غلط ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 173   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2167  
´مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2167]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اگر ایک آدمی بھی صحیح عقیدہ ومنہج پر ہو تو وہ اکیلے بھی جماعت ہے،
اصل معیار صحیح عقیدہ و منہج پر ہونا ہے،
نہ کہ بڑی تعداد میں ہونا،
اس لیے تقلید کے شیدائیوں کا یہ کہنا کہ تقلید پر امت کی اکثریت متفق ہے،
اس لیے مقلدین ہی سواد اعظم ہیں،
سراسر مغالطہ ہے۔

نوٹ:
(سندمیں سلیمان مدنی ضعیف ہیں،
لیکن من شذ شذ إلى النار کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں،
دیکھیے ظلال الجنة رقم: 80)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2167