صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
57. بَابُ إِضْمَارِ الْخَيْلِ لِلسَّبْقِ:
باب: گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑوں کو تیار کرنا۔
حدیث نمبر: 2869
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ وَكَانَ أَمَدُهَا مِنْ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَر كَانَ سَابَقَ بِهَا"، قَالَ: أَبُو عَبْد اللَّهِ أَمَدًا غَايَةً فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور دوڑ کی حد ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق رکھی تھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔ ابوعبداللہ نے کہا کہ «أمدا» (حدیث میں) حد اور انتہا کے معنی میں ہے۔ (قرآن مجید میں ہے) «فطال علیہم الامد» یعنی پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی جو اسی معنی میں ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 562  
´جہاد کے لئے گھوڑا تیار کرنے کی فضیلت`
«. . . 216- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سابق بين الخيل التى قد أضمرت من الحفياء، وكان أمدها ثنية الوداع، سابق بين الخيل التى لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق، وأن عبد الله بن عمر كان ممن سابق بها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گھوڑے جنہیں دبلا کر کے جہاد کے لئے تیار کیا گیا تھا، حفیاء (ایک مقام) سے ثنیة الوداع (دوسرے مقام) تک دوڑائے اور جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا وہ ثنیہ سے لے کر بنو زریق کی مسجد تک دوڑائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 562]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 420، ومسلم 95/1870، من حديث مالك به]
تفقه
➊ میدان جنگ کے لئے گھوڑے پالنا اور انھیں تیار کرنا سنت ہے۔
➋ جوئے وغیرہ کا خوف نہ ہو تو گھڑ دوڑ جائز ہے۔
➌ جہاد کی تیاری اور ٹریننگ ہمہ وقتی عمل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 216   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2869  
´گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑوں کو تیار کرنا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ وَكَانَ أَمَدُهَا مِنْ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ . . .»
. . . عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور دوڑ کی حد ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق رکھی تھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2869]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2869 کا باب: «بَابُ إِضْمَارِ الْخَيْلِ لِلسَّبْقِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
مذکورہ باب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں کہ باب میں اضمار شدہ گھوڑوں کا ذکر مشروط ہے اور حدیث میں غیر اضمار گھوڑوں کا ذکر ہے۔ اس کا جواب اور تطبیق یہ ہو گی کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ حدیث کا ایک لفظ لا کر دوسرے لفظ کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، اس حدیث میں دوسرا لفظ یہ ہے کہ جن گھوڑوں کا اضمار ہوا تھا آپ نے ان کی شرط کرائی، حفیاءسے ثینہ تک۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ سنت تو یہ ہے کہ مقابلہ میں وہ گھوڑے مقدم کیے جائیں جن کو دبلا کیا گیا ہو، لیکن اگر ان گھوڑوں کا مقابلہ کروایا جائے جن کا اضمار نہیں کیا گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
«اشارة إلى أن السنة فى المسابقة أن يتقدم اضمار الخيل، وان كانت التى لا تضمر لا تمتنع المسابقة عليها.» [فتح الباري، ج 6، ص: 89]
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أي هذا باب فى بيان اضمار الخيل لأجل السبق، هل هو شرط أم لا؟» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص: 159]
یعنی یہ باب مقابلہ کی غرض سے گھوڑے کے اضمار کے بیان میں ہے (مقابلے میں شریک) گھوڑے کا اضمار کرنا شرط ہے یا نہیں۔ لہذا اس بات کا جواب حدیث کے باب میں مذکور ہے کہ مقابلے کے گھوڑوں کے لیے اضمار شرط نہیں، اس کے بغیر بھی مقابلہ کروایا جا سکتا ہے۔ [المتواري على أبواب البخاري، ص: 160]
فائدہ: (اضمار کے معنی و مطلب):
اضمار خواہ باب افعال سے ہو یا تفعیل سے اس کے معنی گھوڑے کو دبلا بنانے اور چھریرا بنانے کے ہیں۔ لہذا اسی لیے کہا جاتا ہے:
«أضمر الفرس وضمره.» [مصباح اللغات، ص: 499، مادة ’ضمر‘ - المعجم الوسيط، ج 1، ص: 543، مادة ’ضمر‘]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 405   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2877  
´گھوڑ دوڑ میں مقابلہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کو پھرتیلا بنایا، آپ پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کو مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور غیر پھرتیلے گھوڑوں کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک دوڑاتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2877]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تضمیر سے مراد گھوڑوں کی ایک خاص انداز سے تربیت کرنا ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ گھوڑے کو خوب کھلا پلا کر موٹا کرتے ہیں پھر اس کا چارہ کم کردیتے ہیں اور اسے ایک کوٹھڑی میں بند کردیتے ہیں۔
اسے وہاں پسینہ آتا ہے اور وہیں خشک ہوتا ہے۔
اور وہ بغیر تھکے زیادہ دوڑ سکتا ہے۔
۔

(2) (حفياء)
اور(ثنيةالوداع)
دو جگہوں کے نام ہیں جن کے درمیان تین میل کا فاصلہ ہے۔

(3) (ثنية الوداع)
سے مسجد بنی زریق تک ایک میل کا فاصلہ ہے۔

(4)
دور کے مقابلے میں مناسب فاصلے کا تعین ہونا چاہیے۔

(5)
بنی زریق ایک قبیلے کا نام ہے۔
وہ لوگ اس مسجد کے قریب رہتےاور اس میں نماز پڑھتے تھے لہٰذا مسجد کو کسی قبیلے یا گروہ کی طرف پہچان کے لیے منسوب کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ سب مسجدیں اللہ ہی کی ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2877   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1130  
´گھڑ دوڑ اور تیراندازی کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار شدہ گھوڑوں کی حفیاء سے ثنیہ الوداع تک دوڑ کرائی اور جو گھوڑے تیار نہیں تھے ان کو ثنیۃ سے لے کر بنی زریق کی مسجد تک دوڑایا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی مسابقت میں شریک تھے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری میں اتنا اضافہ ہے کہ سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع کا فاصلہ پانچ یا چھ میل ہے اور ثنیۃ سے مسجد بنی زریق تک کا فاصلہ ایک میل ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1130»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الصلاة، باب هل يقال مسجد بني فلان، حديث:420، ومسلم، الإمارة، باب المسابقة بين الخيل وضميرها، حديث:1870.»
تشریح:
1. اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑ دوڑ‘ تیر اندازی اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اس دور میں یہی چیز عموماً جنگ میں کام آتی تھی۔
2. آج کے دور میں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
تیر و نیزے کی جگہ بندوق‘ توپ اور جدید جنگی آلات کے استعمال کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1130   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1699  
´گھڑ دوڑ میں شرط لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «تضمیر» کیے ہوئے گھوڑوں کی مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے، اور جو «تضمیر» کیے ہوئے نہیں تھے ان کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک گھڑ دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان ایک میل کا فاصلہ ہے، گھڑ دوڑ کے مقابلہ میں میں بھی شامل تھا، چنانچہ میرا گھوڑا مجھے لے کر ایک دیوار کود گیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1699]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھڑدوڑ،
تیر اندازی،
اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے،
نبی اکرمﷺ کے دور میں عموماً یہی چیزیں جنگ میں کام آتی تھیں،
حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ آج کے دور میں راکٹ،
میزائل،
ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کا تجربہ حاصل کیاجائے،
ساتھ ہی بندوق توپ اور ہرقسم کے جدید جنگی آلات کی تربیت حاصل کی جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1699   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2575  
´گھوڑ دوڑ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کے درمیان ۱؎ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مقابلہ کرایا، اور غیر چھریرے بدن والے گھوڑوں، کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کرایا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی مقابلہ کرنے والوں میں سے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2575]
فوائد ومسائل:

گھوڑوں کو پالتے ہوئے پہلے انہیں کھلا پلا کر خوب موٹا تازہ کیا جاتا ہے۔
پھر ان کی خوراک میں بتدریج کمی کی جاتی ہے۔
اور کسی مکان میں بند رکھا جاتا ہے۔
اور ان پر کپڑا بھی ڈالتے ہیں۔
اس سے ان کو پسینہ آتا ہے حتی ٰ کہ ان کی زائد چربی وغیرہ ختم ہوجاتی ہے۔
اور اس طرح وہ بہت طاقت ور ہوجاتے ہیں۔
اور ان کا سانس بہت کم پھولتا ہے۔
اس عمل کو اضمار اور ایسے گھوڑوں کو مضمر کہتے ہیں۔
(پہلی میم پر پیش اور دوسری پر زبر کے ساتھ)

حدیث شریف میں ہے کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع کے درمیان پانچ چھ میل کا فاصلہ تھا۔
اور ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق کے درمیان ایک میل کا (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2868)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2575   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2869  
2869. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنھیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور مقابلے کی حدثنیۃ الوداع سے لے کر مسجد بنوزریق تک رکھی تھی۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے گھوڑے دوڑائے تھے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا کہ حدیث میں: لفظ أَمَدُکے معنی حد اور انتہاکے ہیں۔ قرآن مجید میں ﴿فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ﴾ بھی اسی معنی میں ہے۔ یعنی ان پر وقت کی انتہا طویل ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2869]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
باب میں تو اضمار شدہ گھوڑوں کی شرط مذکور ہے اور حدیث میں ان گھوڑوں کا ذکر ہے جن کا اضمار نہیں ہوا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ حدیث کا ایک لفظ لا کر اس کے دوسرے لفظ کی طرف اشارہ کردیتے ہیں‘ اس حدیث میں دوسرا لفظ ہے کہ جن گھوڑوں کا اضمار ہوا تھا آپ نے ان کی شرط کرائی‘ حفیاء سے ثنیۃ تک جیسے اوپر گزرا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2869   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2869  
2869. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنھیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور مقابلے کی حدثنیۃ الوداع سے لے کر مسجد بنوزریق تک رکھی تھی۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے گھوڑے دوڑائے تھے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا کہ حدیث میں: لفظ أَمَدُکے معنی حد اور انتہاکے ہیں۔ قرآن مجید میں ﴿فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ﴾ بھی اسی معنی میں ہے۔ یعنی ان پر وقت کی انتہا طویل ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2869]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ان گھوڑوں کی دوڑ کا ذکر ہے جو تیار شدہ نہیں تھے جبکہ عنوان اس کے برعکس ہے۔
یعنی اس میں تیارشدہ گھوڑوں کا ذکر ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ عنوان میں ایک لفظ لا کر حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں اگرچہ پیش کردہ حدیث میں وہ لفظ نہیں ہوتا۔
اگرچہ اس حدیث میں تیارشدہ گھوڑوں کا ذکر نہیں لیکن اس سے پہلے ایک حدیث میں ان کا ذکر تھا جس کی طرف امام بخاری ؒنے عنوان میں اشارہ کیا ہے ملاحظہ ہو۔
حدیث 2867۔
لہٰذا یہ حدیث عنوان کے خلاف نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2869