سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
45. باب مَا جَاءَ فِي الْقَرْنِ الثَّالِثِ
باب: خیر کے تین عہد اور زمانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2221
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِهِمْ قَوْمٌ يَتَسَمَّنُونَ وَيُحِبُّونَ السِّمَنَ، يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَلِيَّ بْنَ مُدْرِكٍ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمام لوگوں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹے تازے ہوں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دیتے پھریں گے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
محمد بن فضیل نے یہ حدیث اسی طرح «عن الأعمش عن علي بن مدرك عن هلال بن يساف» کی سند سے روایت کی ہے، کئی حفاظ نے اسے «عن الأعمش عن هلال بن يساف» کی سند سے روایت کی ہے، اس میں علی بن مدرک کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشھادات 9 (2651)، و فضائل الصحابة 1 (3650)، والرقاق 7 (6428)، والأیمان 7 (6695)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 52 (2535)، سنن ابی داود/ السنة 10 (4657)، سنن النسائی/الأیمان والنذور 29 (2302) (تحفة الأشراف: 10866)، و مسند احمد (4/426، 427، 436، 440) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: چونکہ یہ لوگ دین و ایمان کی فکر سے خالی ہوں گے، کسی کے سامنے جواب دہی کا کوئی خوف ان کے دلوں میں باقی نہیں رہے گا، اور عیش و آرام کی زندگی کی مستیاں لے رہے ہوں گے، اس لیے موٹاپا ان میں عام ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1840)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1202  
´شہادتوں (گواہیوں) کا بیان`
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا زمانہ تمہارے تمام زمانوں سے بہتر ہے۔ پھر اس کے بعد والا، پھر اس کے بعد والا، اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی دیں گے اور ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خائن ہوں گے، امین نہیں ہوں گے۔ نذر مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر و نمایاں ہو گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1202»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب لايشهد علي شهادة جور إذا أشهد، حديث:2651، ومسلم، فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة....، حديث:2535.»
تشریح:
1. یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض معلوم ہوتی ہے‘ اس لیے کہ اس حدیث سے ازخود شہادت دینے کی مذمت ہوتی ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس کی مدح و تعریف کی گئی ہے۔
تعارض اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً ازخود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرنا‘ باطل طریقے سے کھا پی جانا اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا مقصود ہو۔
حدیث کے سیاق میں غور و تدبر کرنے والا شخص یہ واضح فرق معلوم کر سکتا ہے۔
2. ان دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ طلب سے پہلے ازخود شہادت دینا بہتر اور عمدہ طریقہ ہے جبکہ یہ شہادت حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی ہو اور قبیح اس صورت میں ہے کہ جب حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی جائے۔
3. اس حدیث میں بہترین زمانے کی نشاندہی ہے جس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
4.یہ فضیلت جمہور علماء کے نقطۂ نظر سے فرداً فرداً بھی ہو سکتی ہے اور بحیثیت مجموعی بھی۔
لیکن اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ ہر اعتبار سے افضل ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1202   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2221  
´خیر کے تین عہد اور زمانے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمام لوگوں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹے تازے ہوں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دیتے پھریں گے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چونکہ یہ لوگ دین وایمان کی فکر سے خالی ہوں گے،
کس کے سامنے جواب دہی کا کوئی خوف ان کے دلوں میں باقی نہیں رہے گا،
اور عیش و آرام کی زندگی کی مستیاں لے رہے ہوں گے،
اس لیے موٹاپا ان میں عام ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2221   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4657  
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4657]
فوائد ومسائل:

اس صحیح حدیث میں صحابہ کرام تابعین عظام اور تبع تابعین کے ادوار کے متعلق اجمالی اور مجموعی طور پر بھلائی کی خبر دی گئی ہے۔


ان کے بعد وقار میں کمی ہوگی۔
دینداری میں ضعف آجائے گا اور آخرت کی فکر کم ہوجائے گی۔


اطباء کے قول کے مطابق آدمی کے جسم میں موٹاپا عام طور پر خوش خوراکی کے علاوہ بے فکری اور بے خوفی کی بناء پر آتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4657   
قَالَ: وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ، عَنِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدِي مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس سند سے بھی عمران بن حصین سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ میرے نزدیک محمد بن فضیل کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے عمران بن حصین کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1840)