صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل -- کتاب: غسل کے احکام و مسائل
21. بَابُ التَّسَتُّرِ فِي الْغُسْلِ عِنْدَ النَّاسِ:
باب: اس بیان میں کہ لوگوں میں نہاتے وقت پردہ کرنا ضروری ہے۔
حدیث نمبر: 281
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ:" سَتَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ وَمَا أَصَابَهُ، ثُمَّ مَسَحَ بِيَدِهِ عَلَى الْحَائِطِ أَوِ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ غَيْرَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ الْمَاءَ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ"، تَابَعَهُ أَبُو عَوَانَةَ، وَابْنُ فُضَيْلٍ فِي السَّتْرِ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے اعمش سے، وہ سالم بن ابی الجعد سے، وہ کریب سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، وہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرما رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے، پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی بہایا اور شرمگاہ دھوئی اور جو کچھ اس میں لگ گیا تھا اسے دھویا پھر ہاتھ کو زمین یا دیوار پر رگڑ کر (دھویا) پھر نماز کی طرح وضو کیا۔ پاؤں کے علاوہ۔ پھر پانی اپنے سارے بدن پر بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر دونوں قدموں کو دھویا۔ اس حدیث میں ابوعوانہ اور محمد بن فضیل نے بھی پردے کا ذکر کیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 281  
´لوگوں میں نہاتے وقت پردہ کرنا ضروری ہے`
«. . . عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: " سَتَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ وَمَا أَصَابَهُ، ثُمَّ مَسَحَ بِيَدِهِ عَلَى الْحَائِطِ أَوِ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ غَيْرَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ الْمَاءَ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ "، تَابَعَهُ أَبُو عَوَانَةَ، وَابْنُ فُضَيْلٍ فِي السَّتْرِ . . . .»
. . . میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرما رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے، پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی بہایا اور شرمگاہ دھوئی اور جو کچھ اس میں لگ گیا تھا اسے دھویا پھر ہاتھ کو زمین یا دیوار پر رگڑ کر (دھویا) پھر نماز کی طرح وضو کیا۔ پاؤں کے علاوہ۔ پھر پانی اپنے سارے بدن پر بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر دونوں قدموں کو دھویا۔ اس حدیث میں ابوعوانہ اور محمد بن فضیل نے بھی پردے کا ذکر کیا ہے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ التَّسَتُّرِ فِي الْغُسْلِ عِنْدَ النَّاسِ:: 281]

تشریح:
ابوعوانہ کی روایت اس سے پہلے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ذکر فرما چکے ہیں اور محمد بن فضیل کی روایت کو ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں نکالا ہے۔ ابوعوانہ کی روایت کے لیے حدیث نمبر 260 ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 281   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 274  
´جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا`
«. . . وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا لِجَنَابَةٍ فَأَكْفَأَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ ضَرَبَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ أَوِ الْحَائِطِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَهُ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 274]

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا۔ کیوں کہ ابتداء ہی میں وضو کیا جاتا ہے جب آخری مرتبہ جسم پر پانی ڈال دیا جائے تو دوبارہ وضو کی ضرورت نہیں جیسا کہ حدیث کے متن میں واضح ہے کہ آپ نے پورے جسم پر پانی بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پیر دھوئے اور اس کے بعد دوبارہ وضو نہیں کیا۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں:
«فرض المصنف ان اعادة غسل سائر اعضاء الوضؤ غير لازم والاستدلال بظاهر الحديث» [شرح تراجم ابواب البخاري: ص 112]
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ غسل کے بعد تمام اعضاء وضوء تو دوبارہ دھونا لازم نہیں ہے اور مصنف رحمہ اللہ نے حدیث کے ظاہر سے استدلال فرمایا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کلی اور ناک میں پانی ڈالتے وقت اگر غسل اور وضو کی نیت ہے تو دوبارہ اعضاء کو دھونے پر اختیار ہے، یعنی غسل میں کیا گیا وضو کافی ہو گا۔ جب کہ اس نے دونوں کی نیت کی ہے۔ [المغني۔ ج1۔ ص289]
ہاں البتہ اتنا یاد رکھنا چاہئیے کہ غسل کے دوران شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضو کا اعادہ ضروری ہو گا۔

ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يجب الوضوء إذا مس فرجه فى الغسل»
جب شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضوء لازم ہو جاتا ہے۔ [عارضة الاجوزي، ج1، ص163]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 141   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 245  
´غسل جنابت کے طریقے کا بیان `
«. . . حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا يَغْتَسِلُ بِهِ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ صَبَّ عَلَى فَرْجِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ الْمِنْدِيلَ فَلَمْ يَأْخُذْهُ وَجَعَلَ يَنْفُضُ الْمَاءَ عَنْ جَسَدِهِ . . .»
. . . ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی رکھا، تاکہ آپ غسل کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کو اپنے داہنے ہاتھ پر جھکایا اور اسے دوبار یا تین بار دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر اور جسم پر پانی ڈالا، پھر کچھ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، میں نے بدن پونچھنے کے لیے رومال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا، اور پانی اپنے بدن سے جھاڑنے لگے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: 245]
فوائد و مسائل:
➊ غسل جنابت ہو یا عام غسل، مسنون طریقہ یہی ہے جو ان احادیث میں آیا ہے کہ پہلے استنجا اور زیریں جسم دھویا جائے، بعد ازاں وضو کر کے باقی جسم پر پانی بہایا جائے۔ اس وضو میں سر پر مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت سے پہلے والے وضو میں سر کے مسح کا ذکر نہیں ملتا، صرف تین مرتبہ سر پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔ اسی لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے غسل جنابت سے پہلے وضو میں سر کے مسح کا چھوڑ دینا۔ اس باب کے تحت حدیث میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ سر پر پہنچے، تو اس کا مسح نہیں کیا، بلکہ اس پر پانی بہایا۔ [سنن نسائي حديث: 422]
➋ مختلف احادیث میں وضو کا انداز مختلف نقل ہوا ہے۔ بعض میں پاؤں دھونے کے موقع کا بالکل ذکر نہیں ہے۔ بعض میں صراحت ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد دھوئے اور بعض میں دو دفعہ کا ذکر ہے۔ پہلی دفعہ میں وضو کے ساتھ اور دوسری دفعہ فراغت کے بعد اور ظاہر ہے کہ سب ہی صورتیں جائز ہیں۔
➌ غسل کے بعد تولیہ کا استعمال مباح ہے، نہ کرے تو سنت رسول پر عمل کے ثواب کا امیدوار ہونا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 245   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 418  
´پانی بہانے سے پہلے جنبی کا اپنے اوپر لگی ہوئی گندگی دور کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، البتہ اپنے دونوں پاؤں نہیں دھوئے، اور (وضو سے پہلے) آپ نے اپنی شرمگاہ اور اس پر لگی ہوئی گندگی دھوئی، پھر اپنے جسم پر پانی بہایا، پھر اپنے دونوں پاؤں کو ہٹایا اور انہیں دھویا، یہی (آپ کے) غسل جنابت کا طریقہ تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 418]
418۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں استنجا کرنے سے پہلے وضو کرنے کا بیان ہے۔ یہ بیان میں سہو ہے۔ اگلی روایت سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلے گندگی صاف کی جائے، یعنی استنجا کیا جائے، اس کے بعد نماز پڑھی جائے۔ صرف سر کا مسح نہیں ہو گا۔ اس کی بجائے تین چلو پانی سر میں ڈالا جائے گا اور پاؤں بھی غسل کرنے کے بعد آخر میں دھوئے جائیں گے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ شروع میں بھی دھوئے جاسکتے ہیں جبکہ بعد میں پاؤں کے آلودہ ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے، حدیث 254 اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 418   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 419  
´شرمگاہ دھونے کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے، اور اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر زمین پر اپنا ہاتھ مارتے، پھر اسے ملتے، پھر دھوتے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر اپنے سر اور باقی جسم پر پانی ڈالتے، پھر وہاں سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوتے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 419]
419۔ اردو حاشیہ:
➊ اگرچہ استنجا کرنے سے شرم گاہ کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی صاف ہو جاتا ہے مگر چونکہ ہاتھ افضل جزو ہے۔ نماز، قرأت قرآن اور کھانے پکانے وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اس کی خصوصی صفائی کرنی چاہیے، یعنی اسے مٹی یا صابن وغیرہ سے مل کر اچھی طرح دھویا جائے۔
➋ مٹی نجاست کی بو اور چکناہٹ وغیرہ کو ختم کرتی ہے، اس لیے استنجا کے بعد ہاتھ کو مٹی سے ملنا چاہیے۔ آج کل صابن یہی کام کر سکتا ہے۔ مزید دیکھیے حدیث254 اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 419   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 428  
´غسل میں اعضاء کو ایک ایک بار دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابت کا غسل کیا، تو آپ نے اپنی شرمگاہ کو دھویا، اور زمین یا دیوار پر اپنا ہاتھ رگڑا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر اور پورے جسم پر پانی بہایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 428]
428۔ اردو حاشیہ: غسل جنابت میں شرط یہ ہے کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، خواہ پانی جسم پر ایک دفعہ ڈالا جائے یا زیادہ دفعہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 428   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 254  
´غسل کی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میری خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی لا کر رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار اپنے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کیا تو اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور سے ملا، پھر اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر پر تین لپ بھربھر کر ڈالا، پھر اپنے پورے جسم کو دھویا، پھر آپ اپنی جگہ سے الگ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر میں تولیہ لے کر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 254]
254۔ اردو حاشیہ:
➊ مٹی پر ہاتھ رگڑنا بدبو اور لیس کو ختم کرتا ہے اور آلودگی سے وسوسے کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا استنجے کے بعد یہ مستحب ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرش کچے ہوتے تھے، لہٰذا غسل کا پانی پاؤں میں جمع ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ پاؤں دھونے میں کوئی فائدہ نہ تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے، البتہ اگر پانی جمع نہ ہوتا ہو تو اسی جگہ پاؤں دھوئے جا سکتے ہیں۔
➌ غسل یا وضو کے بعد رومال استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا رومال پیش کرنا، اس کے جواز کی دلیل ہے کہ آپ کے گھر میں رومال تھا۔ باقی رہا آپ کا واپس کرنا تو وہ کسی اور وجہ سے ہو گا، مثلاً: آپ چاہتے ہوں گے کہ پانی کچھ دیر جسم پر رہے تاکہ ٹھنڈک محسوس ہو، وغیرہ۔
➍ رومال پانی کے ساتھ ساتھ میل کچیل کو بھی اچھی طرح صاف کر دیتا ہے اور یہی غسل سے مطلوب ہے، نیز غسل کے بعد پانی کا جسم پر رہنا شرعاً مطلوب نہیں اور یہ رہ بھی نہیں سکتا، ہوا یا کپڑوں سے جلد یا بدیر خشک ہو ہی جائے گا۔
➎ جو شخص ٹب وغیرہ سے چلو بھر کر پانی لینا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی ہتھیلیاں پہلے دھو لے تاکہ پانی آلودہ نہ ہو۔
➏ شرم گاہ دھونے کے لیے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 254   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث467  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کر چکے تو میں آپ کے پاس ایک کپڑا لائی، آپ نے اسے واپس لوٹا دیا اور (بدن سے) پانی جھاڑنے لگے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 467]
اردو حاشہ:
نبیﷺ نے کپڑا اس لیے واپس کردیا کہ اسے ضروری نہ سمجھ لیا جائے تاکہ اس سے امت کے لیے مشکل نہ پیدا ہو، پھر کسی موقع پر ایک آدمی کے لیے بدن پونچھنے کے لیے الگ کپڑا موجود نہ ہوتو وہ حرج محسوس کرے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 467   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:281  
281. حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کا پردہ کیا تھا جبکہ آپ غسل جنابت کر رہے تھے، چنانچہ آپ نے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر آپ نے اپنی شرمگاہ اور اس آلائش کو دھویا جو لگی ہوئی تھی۔ بعد ازاں آپ نے اپنا ہاتھ دیوار یا زمین پر رگڑا، پھر آپ نے نماز کے وضو جیسا وضو کیا، البتہ پاؤں نہیں دھوئے، پھر آپ نے پورے جسم پر پانی بہایا۔ اس کے بعد وہاں سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:281]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے پہلے باب میں تنہا اورالگ غسل کرنے کا حکم بتایا تھا، اس باب میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر دوسروں کی موجودگی میں غسل کی حاجت ہو تو تستر(پردہ کرنا)
ضروری ہے۔
یا پردہ ہونے کی قدرت کے باجود برہنہ غسل کرنا حرام ہے۔
شاہ ولی اللہ ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ دوسروں کی موجودگی میں غسل کرنا ہو تو آڑ اور پردہ کرکے غسل کرنا چاہیے۔
الغرض تستر تو فضا میں بھی مطلوب ہے، اگرچہ کپڑے سے یا کم از کم کسی آڑ ہی سے ہو، ہاں اگر وہاں کسی کے گزرنے کا اندیشہ نہ ہوتوتستر کے بغیر غسل جائز ہے۔
اسی طرح غسل خانہ اورحمام میں بھی برہنہ غسل کرنا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے دوروایات پیش کی ہیں:
حدیث میمونہ تو متعدد مرتبہ پہلے آچکی ہے۔
حدیث ام ہانی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن فتح سے فراغت کے بعد حضرت ام ہانی ؓ کے مکان پر تشریف لے گئے، ان کا مکان مکے سے باہر تھا، حضرت فاطمہ ؓ نے پردہ کیا اورآپ نے غسل فرمایا۔
دوران غسل میں حضرت ام ہانی وہاں پہنچیں تو آپ نے دریافت فرمایا:
کون عورت ہے؟ یہ معلوم تھا کہ کوئی مرد زنانے مکان میں نہیں آ سکتا، اس لیے فرمایا کہ کون عورت ہے؟ یہ معلوم تھا کہ کوئی مرد زنانے مکان میں نہیں آسکتا، اس لیے فرمایا کہ کون عورت ہے؟ اس روایت سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی موجودگی میں غسل کے لیے پردہ کرنا ضروری ہے۔

علامہ عینی نے لکھا ہےکہ مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غسل کے وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوناضروری ہے، لہذا جس طرح ایک شخص اپنے قابل ستر جسم کو دوسروں کے سامنے بلاوجہ ظاہر نہیں کر سکتا، اسی طرح دوسروں کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ قابل سترجسم کو بلاضرورت دیکھیں۔
پھر اس امر پر بھی اجماع ہے کہ مرد اپنی بیوی کا اوربیوی اپنے شوہر کا قابل ستر جسم دیکھ سکتی ہے۔
علامہ نووی نے لکھا ہے کہ ایک شخص اپنی محرم عورتوں کی موجودگی میں غسل کرسکتا ہے، بشرطیکہ درمیان میں پردہ حائل ہو۔
(عمدۃ القاري: 65/3)

لوگوں کے سامنے نہاتے وقت ایک اور بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ صرف کپڑا باندھ کر نہانے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ لوگوں کی نگاہوں سے بھی پردہ کرے، جیساکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ برہنہ تو غسل نہیں کررہے تھے، بلکہ کپڑا وغیرہ باندھ کر غسل فرمارہے ہوں گے، اس کے باوجود حضرت فاطمہ ؓ آڑ کیے ہوئے تھیں، وہ بقیہ بدن کے لیے تھی۔
اگرچہ اس کا تستر ضروری نہ تھا، تاہم اس آڑ کا بھی اہتمام کیا۔
وھوالمقصود۔

حدیث میمونہ ؓ میں ہے کہ وہ حدیث غسل میں رسول اللہ ﷺ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔
امام اعمش سے یہ الفاظ بیان کرنے میں سفیان اکیلے نہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس کے لیے متابعت بیان فرمائی ہے کہ ان الفاظ کو امام اعمش سے ابوعوانہ الوضاح البصری بھی بیان کرتے ہیں، جسے خود امام بخاری ؒ نے حدیث رقم (266)
میں نقل فرمایا ہے۔
اور محمد بن فضیل نے بھی یہ الفاظ اعمش سے بیان کیے ہیں، جیسا کہ صحیح ابوالاعوانہ الاسفرائنی میں ہے۔
(فتح الباري: 503/1)
امام بخاری ؒ نے یہاں صرف دو متابعات کا حوالہ دیا ہے جن میں پردہ کرنے کا ذکر ہے، البتہ ایک تیسری متابعت بھی ہے، جسے امام اعمش سے ابوحمزہ نے بیان کیا ہے، اس میں بھی پردہ کرنے کی صراحت ہے۔
اسے بھی امام بخاری ؒ نے ہی بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 276)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 281