صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
61. بَابُ بَغْلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْضَاءِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر کا بیان۔
حدیث نمبر: 2874
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا عُمَارَةَ وَلَّيْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ، قَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا وَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ وَلَّى سَرَعَانُ النَّاسِ، فَلَقِيَهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہ ان سے ایک شخص نے پوچھا اے ابوعمارہ! کیا آپ لوگوں نے (مسلمانوں کے لشکر نے) حنین کی لڑائی میں پیٹھ پھیر لی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری تھی البتہ جلد باز لوگ (میدان سے) بھاگ پڑے تھے (اور وہ لوٹ میں لگ گئے تھے) قبیلہ ہوازن نے ان پر تیر برسانے شروع کر دئیے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب‏"‏» میں نبی ہوں جس میں جھوٹ کا کوئی دخل نہیں۔ میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1688  
´جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1688]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔

2؎:
ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں،
مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے،
نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے،
اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے،
اور اسلام قبول کرلیا،
پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔

3؎:
اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے،
اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں،
اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں،
عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی،
یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی،
چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپﷺ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: (أيكم ابن عبد المطلب؟)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1688   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2874  
2874. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عمارہ! کیا تم نے غزوہ حنین کے موقع پر پیٹھ پھیر لی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! نبی کریم ﷺ میدان جنگ سے پیچھے نہیں ہٹے تھے، البتہ جلد باز قسم کے لوگ بھاگ پڑے تھے جب قبیلہ ہوازن نے تیروں سے ان کا مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث ؓاس کی لگام پکڑے ہوئے تھے، ان حالات میں نبی کریم ﷺ فرمارہے تھے: میں نبی برحق ہوں اس میں جھوٹ کو کوئی دخل نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2874]
حدیث حاشیہ:
اس میں آنحضرتﷺ کے سفید خچر کا ذکرہے‘ اسی لئے حضرت مجتہد مطلق امام بخاریؒ نے اس حدیث کو یہاں لائے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد میں مناسب طور پر آباء و اجداد کی بہادری کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
جنگ حنین ماہ شوال ۸ ھ میں قبائل ہوازن و ثقیف کے جارحانہ حملوں کی مدافعت کے لئے لڑی گئی تھی۔
دشمنوں کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی اور اسلامی لشکر بارہ ہزار پر مشتمل تھا اور اسی کثرت تعدادکے گھمنڈ میں اسلام مراحل حزم و احتیاط سے غافل ہوگیا تھا جس کی پاداش فرار کی صورت میں بھگتنی پڑی‘ بعد میں جلد ہی مسلمان سنبھل گئے اور آخر میں مسلمانوں کی ہی فتح ہوئی۔
مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2874   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2874  
2874. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عمارہ! کیا تم نے غزوہ حنین کے موقع پر پیٹھ پھیر لی تھی؟ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! نبی کریم ﷺ میدان جنگ سے پیچھے نہیں ہٹے تھے، البتہ جلد باز قسم کے لوگ بھاگ پڑے تھے جب قبیلہ ہوازن نے تیروں سے ان کا مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث ؓاس کی لگام پکڑے ہوئے تھے، ان حالات میں نبی کریم ﷺ فرمارہے تھے: میں نبی برحق ہوں اس میں جھوٹ کو کوئی دخل نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2874]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓنے مذکورہ حدیث اس مقصد کے لیے ذکر کی ہے کہ اس میں سفید خچر کا ذکر ہے صحیح مسلم میں ہے یہ خچر آپ ﷺ کو کو فروہ نفاثہ نے بطور ہدیہ دیا تھا۔
(صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث 1775)
بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے۔
جس خچر پر آپ نے حنین کے دن سواری کی تھی اس کا نام دلدل تھا اور مقوقش نے اپ کو تحفہ میں دیا تھا۔
اور جو خچر فروہ نے پیش کیا تھا اس کانام فضہ تھا۔
ہمارے رجحان کے مطابق صحیح مسلم کی روایت راجح اور صحیح ہے کہ مذکورہ خچر حضرت فروہ بن نفاثہ نے دیا تھا۔
(فتح الباري: 92/6)
واللہ أعلم۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد و قتال کے موقع پر مناسب انداز میں اپنے آباء واجداد کی بہادری کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2874