صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
63. بَابُ غَزْوِ الْمَرْأَةِ فِي الْبَحْرِ:
باب: دریا میں سوار ہو کر عورت کا جہاد کرنا۔
حدیث نمبر: 2877
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ هُوَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنَةِ مِلْحَانَ فَاتَّكَأَ عِنْدَهَا، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقَالَتْ: لِمَ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَثَلُهُمْ مَثَلُ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ فَضَحِكَ، فَقَالَتْ لَهُ: مِثْلَ أَوْ مِمَّ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهَا: مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ، وَلَسْتِ مِنَ الْآخِرِينَ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: فَتَزَوَّجَتْ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ مَعَ بِنْتِ قَرَظَةَ فَلَمَّا، قَفَلَتْ رَكِبَتْ دَابَّتَهَا فَوَقَصَتْ بِهَا، فَسَقَطَتْ عَنْهَا فَمَاتَتْ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے، ہم سے ابواسحاق نے ان سے عبداللہ بن عبدالرحمٰن انصاری نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان کے یہاں تشریف لے گئے اور ان کے یہاں تکیہ لگا کر سو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اٹھے تو) مسکرا رہے تھے۔ ام حرام نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہو رہے ہیں ان کی مثال (دنیا یا آخرت میں) تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ! انہیں بھی ان لوگوں میں سے کر دے پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے اور (اٹھے) تو مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلی ہی وجہ بتائی۔ انہوں نے پھر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے لشکر میں شریک ہو گی اور یہ کہ بعد والوں میں تمہاری شرکت نہیں ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ نے (ام حرام نے) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کر لیا اور بنت قرظ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے ساتھ انہوں نے دریا کا سفر کیا۔ پھر جب واپس ہوئیں اور اپنی سواری پر چڑھیں تو اس نے ان کی گردن توڑ ڈالی۔ وہ اس سواری سے گر گئیں اور (اسی میں) ان کی وفات ہوئی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2877  
2877. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ہاں تکیہ لگا کر سو گئے۔ پھر(جب اٹھے تو) آپ مسکرارہے تھے۔ انھوں (ام حرام ؓ) نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہیں، جیسے بادشاہ تخت پر فروکش ہوں۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے ان میں سے کردے۔ آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں سے کردے۔ پھر آپ دوبارہ (لیٹ کر اٹھے تو) مسکرارہے تھے تو انھوں نے اس مرتبہ بھی آپ سے وہی سوال کیا تو آپ نے اسی طرح جواب دیا۔ ام حرام نے عرض کیا: آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا: تو پہلے لوگوں میں ہوچکی ہے، بعد والوں میں تیری شرکت نہیں ہوگی۔ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2877]
حدیث حاشیہ:
یہ نکاح کا معاملہ دوسری روایت کے خلاف پڑتا ہے‘ جس میں یہ ہے کہ اسی وقت عبادہ بن صامت ؓ کے نکاح میں تھیں۔
شاید انہوں نے طلاق دے دی ہوگی‘ بعد میں ان سے نکاح ثانی کیا ہوگا۔
یہ اس جنگ کا ذکر ہے جس میں حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں رجب ۲۸ھ میں سب سے پہلا سمندری بیڑہ حضرت معاویہ ؓنے امیر المؤمنین کی اجازت سے تیار کیا اور قبرص پر چڑھائی کی۔
یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری جنگ تھی جس میں ام حرام ؓ جو کہ نبی اکرمﷺ کی عزیزہ تھیں‘ شریک ہوئیں اور شہادت بھی پائی۔
حضرت معاویہ ؓ کی بیوی کا نام فاختہ تھا اور وہ بھی آپ کے ساتھ اس میں شریک تھیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2877   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2877  
2877. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ہاں تکیہ لگا کر سو گئے۔ پھر(جب اٹھے تو) آپ مسکرارہے تھے۔ انھوں (ام حرام ؓ) نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہیں، جیسے بادشاہ تخت پر فروکش ہوں۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے ان میں سے کردے۔ آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں سے کردے۔ پھر آپ دوبارہ (لیٹ کر اٹھے تو) مسکرارہے تھے تو انھوں نے اس مرتبہ بھی آپ سے وہی سوال کیا تو آپ نے اسی طرح جواب دیا۔ ام حرام نے عرض کیا: آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا: تو پہلے لوگوں میں ہوچکی ہے، بعد والوں میں تیری شرکت نہیں ہوگی۔ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2877]
حدیث حاشیہ:

حضرت عثمان ؓکے دور حکومت میں حضرت امیر معاویہ ؓ کی زیر نگرانی مسلمانوں نے پہلا سمندری سفر کیا اور قبرص پر چڑھائی کی۔
اس میں رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق حضرت اُم حرام ؓ بھی شریک ہوئیں اور شہادت پائی۔
حضرت امیر معاویہ ؓ کی زوجہ محترمہ بنت قرظہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔

اس حدیث سے امام بخاری ؓ نے عورتوں کے لیے جہاد میں شرکت کو ثابت کیا ہے خواہ انھیں بحری سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
واضح رہے کہ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ رسول اللہ ﷺ کی رضاعى خالہ تھیں اس لیے آپ کا ان کے گھر آناجانا تھا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2877