صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
66. بَابُ حَمْلِ النِّسَاءِ الْقِرَبَ إِلَى النَّاسِ فِي الْغَزْوِ:
باب: جہاد میں عورتوں کا مردوں کے پاس مشکیزہ اٹھا کر لے جانا۔
حدیث نمبر: 2881
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ثَعْلَبَةُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ: إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" قَسَمَ مُرُوطًا بَيْنَ نِسَاءٍ مِنْ نِسَاءِ الْمَدِينَةِ فَبَقِيَ مِرْطٌ جَيِّدٌ، فَقَالَ لَهُ: بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَعْطِ هَذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي عِنْدَكَ يُرِيدُونَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، فَقَالَ عُمَرُ: أُمُّ سَلِيطٍ أَحَقُّ، وَأُمُّ سَلِيطٍ مِنْ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ، مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنَّهَا كَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ يَوْمَ أُحُدٍ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: تَزْفِرُ تَخِيطُ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، ان سے ثعلبہ بن ابی مالک نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا یا امیرالمؤمنین! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دے دیجئیے، جو آپ کے گھر میں ہیں۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ سے تھی لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط اس کی زیادہ مستحق ہیں۔ یہ ام سلیط رضی اللہ عنہا ان انصاری خواتین میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ احد کی لڑائی کے موقع پر ہمارے لیے مشکیزے (پانی کے) اٹھا کر لاتی تھیں۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا (حدیث میں) لفظ «تزفر» کا معنی یہ ہے کہ سیتی تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2881  
2881. حضرت ثعلبہ بن ابو مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓبن خطاب نے مدینہ طیبہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں تو ایک بہترین نئی چادر بچ گئی۔ آپ کے قریبی حضرات نے کہا: امیر المومنین ؓ!یہ چادر رسول اللہ ﷺ کی بیٹی (نواس) کوعنایت کردیں جو آپ کے نکاح میں ہے۔ ان کی مراد ام کلثوم بنت علی تھیں۔ حضرت عمر ؓنے جواب دیا کہ حضرت ام سلیط ؓاس کی زیادہ حقدار ہیں۔ اور ام سلیط ؓان انصاری عورتوں میں سے تھیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھیں۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا: یہ ام سلیط جنگ اُحد کے دن ہمارے لیے پانی کے مشکیزے اٹھا اٹھا کرلاتی تھیں۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں کہ تَزْفِرُ کے معنی ہیں: پھٹے پرانے مشکیزوں کو سی کرلاتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2881]
حدیث حاشیہ:
تزفر کا معنی سینے سے کرنا صحیح نہیں ہے‘ صحیح معنی یہ ہے کہ اٹھا کر لاتی تھی۔
قسطلانی نے کہا امام بخاریؒ نے یہ معنی ابو صالح کاتب لیث کی تقلید سے نقل کردیا۔
حضرت عمرؓ کا عدل و انصاف یہاں سے معلوم کرنا چاہئے۔
یہ چادر آپ اپنی بیوی ام کلثوم ؓ کو دے دیتے مگر صرف اس خیال سے نہ دی کہ وہ ان کی بیوی تھیں اور غیر کو جس کا حق زیادہ تھا مقدم کیا۔
انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2881   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2881  
2881. حضرت ثعلبہ بن ابو مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓبن خطاب نے مدینہ طیبہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں تو ایک بہترین نئی چادر بچ گئی۔ آپ کے قریبی حضرات نے کہا: امیر المومنین ؓ!یہ چادر رسول اللہ ﷺ کی بیٹی (نواس) کوعنایت کردیں جو آپ کے نکاح میں ہے۔ ان کی مراد ام کلثوم بنت علی تھیں۔ حضرت عمر ؓنے جواب دیا کہ حضرت ام سلیط ؓاس کی زیادہ حقدار ہیں۔ اور ام سلیط ؓان انصاری عورتوں میں سے تھیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھیں۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا: یہ ام سلیط جنگ اُحد کے دن ہمارے لیے پانی کے مشکیزے اٹھا اٹھا کرلاتی تھیں۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں کہ تَزْفِرُ کے معنی ہیں: پھٹے پرانے مشکیزوں کو سی کرلاتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2881]
حدیث حاشیہ:

اُم کلثوم سیدہ فاطمہ ؓ کی بیٹی تھیں رسول اللہ ؓ کی حیات طیبہ میں پیدا ہوئیں۔
حضرت علی ؓنے حضرت عمر فاروق ؓ کی درخواست پر ان سے نکاح کردیا تھا لیکن شیعہ حضرات اسے تسلیم نہیں کرتے۔
بلکہ اسے غصب سے تعبیر کرتے ہیں۔

اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کی مردم شناسی اور انصاف پسندی کا پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ایک بہترین نئی چادر اپنی بیوی اُم کلثوم ؓ کو دینے کی بجائے۔
حضرت اُم سلیط ؓ کو ان کی خدمات کے صلے میں عطا کی۔

حافظ ابن حجر ؒنے لکھا ہے عربی لغت میں (تَزفِرُ)
کا لفظ سینے کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے معنی اٹھانا ہے۔
(فتح الباري: 98/6)
ہمارے رجحان کے مطابق اس کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ مشکیزے اٹھا کر لاتی تھیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2881