سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
44. باب مِنْهُ
باب: دنیا سے بے رغبتی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2377
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنِي الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ , فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً، فَقَالَ: " مَا لِي وَمَا لِلدُّنْيَا مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا " , قَالَ: وفي الباب عن ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سو گئے، نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑ گیا تھا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنا دیں تو بہتر ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے، میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے، پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4109) (تحفة الأشراف: 9443) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4109)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4109  
´دنیا کی مثال۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے تو آپ کے بدن مبارک پر اس کا نشان پڑ گیا، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے اس پر کچھ بچھا دیتے، آپ اس تکلیف سے بچ جاتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو دنیا میں ایسے ہی ہوں جیسے کوئی مسافر درخت کے سائے میں آرام کرے، پھر اس کو چھوڑ کر وہاں سے چل دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4109]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بودباش میں سادگی مستحسن ہے۔

(2)
عمدہ چیز سے اجتناب اگر اس لحاظ سے ہو کہ جو رقم اپنی ذات پر خرچ ہونے والی ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ ہوتو بہتر ہےاگر بخل کی وجہ سے ہوتو بری عادت ہے۔
اگر حلال چیز کو اپنے آپ پر حرام کرلیا جائے تو شرعاً ممنوع ہے۔

(3)
زہد کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نعمت کے لیے حرص نہ کی جائے اگر بغیر حرص کے جائز طریقے سے مل جائے تو شرعاً ممنوع ہے۔

(3)
زہد کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نعمت کے لیے حرص نہ کی جائےاگر بغیر حرص کےجائز طریقے سے مل جائے تو استعمال کر لی جائے۔
اہتمام اور تکلف زہد کے منافی ہے۔

(4)
جس چیز کی دعوت دی جائے اس کا عملی نمونہ پیش کرنے سے تبلیغ کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔

(5)
حکومت کے عہدے داروں کو پر تکلف زندگی سے خاص طور پر بچنا چاہیے تاکہ عوام کی ضروریات اور فلاح و بہبود کے لیے زیادہ رقم خرچ ہو سکے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4109