صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
71. بَابُ فَضْلِ الْخِدْمَةِ فِي الْغَزْوِ:
باب: جہاد میں خدمت کرنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2890
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرُنَا ظِلًّا الَّذِي يَسْتَظِلُّ بِكِسَائِهِ، وَأَمَّا الَّذِينَ صَامُوا فَلَمْ يَعْمَلُوا شَيْئًا، وَأَمَّا الَّذِينَ أَفْطَرُوا فَبَعَثُوا الرِّكَابَ وَامْتَهَنُوا وَعَالَجُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ".
ہم سے سلیمان بن داود ابوالربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے، ان سے عاصم بن سلیمان نے، ان سے مورق عجلی نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روزے سے تھے اور کچھ نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ موسم گرمی کا تھا، ہم میں زیادہ بہتر سایہ جو کوئی کرتا، اپنا کمبل تان لیتا۔ خیر جو لوگ روزے سے تھے وہ کوئی کام نہ کر سکے تھے اور جن حضرات نے روزہ نہیں رکھا تھا تو انہوں نے ہی اونٹوں کو اٹھایا (پانی پلایا) اور روزہ داروں کی خوب خوب خدمت بھی کی۔ اور (دوسرے تمام) کام کئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج اجر و ثواب کو روزہ نہ رکھنے والے لوٹ کر لے گئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2890  
2890. حضرت انس ؓہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ ہم میں سے زیادہ بہتر سایہ جو کوئی کرتا، اپنا کمبل تان لیتا۔ جو لوگ روزے سے تھے وہ تو کوئی کام نہ کرسکے اور جن حضرات نے روزہ نہیں ر کھا تھا انہوں نے سواریوں کو اٹھایا اور دوسروں کی خوب خوب خدمت کی اور دوسرے تمام کام کیے۔ تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب لوٹ لیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2890]
حدیث حاشیہ:
یعنی روزہ داروں سے زیادہ ان کو ثواب ملا‘ معلوم ہوا کہ جہاد میں مجاہدین کی خدمت کرنا روزے سے زیادہ اجر رکھتا ہے۔
روزہ ایک انفرادی نیکی ہے مگر مجاہدین کی خدمت پوری ملت کی خدمت ہے‘ اس لئے اس کو بہرحال فوقیت حاصل ہے حدیث کا مفہوم یہ بھی ہے کہ روزہ اگرچہ خیر محض ہے اور مخصوص و مقبول عبادت ہے پھر بھی سفر وغیرہ میں ایسے مواقع پر جبکہ اس کی وجہ سے دوسرے اہم کام رک جانے کا خطرہ ہو تو روزہ نہ رکھنا افضل ہے۔
جو واقعہ حدیث میں ہے اس میں بھی یہی صورت پیش آئی تھی کہ جو لوگ روزے سے تھے وہ کوئی کام تھکن وغیرہ کی وجہ سے نہ کرسکے لیکن بے روزہ داروں نے پوری توجہ سے تمام خدمات انجام دیں‘ اس لئے ان کا ثواب روزہ رکھنے والوں سے بھی بڑھ گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2890   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2890  
2890. حضرت انس ؓہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ ہم میں سے زیادہ بہتر سایہ جو کوئی کرتا، اپنا کمبل تان لیتا۔ جو لوگ روزے سے تھے وہ تو کوئی کام نہ کرسکے اور جن حضرات نے روزہ نہیں ر کھا تھا انہوں نے سواریوں کو اٹھایا اور دوسروں کی خوب خوب خدمت کی اور دوسرے تمام کام کیے۔ تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب لوٹ لیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2890]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒنے اس عنوان کے تحت تین احادیث ذکر کی ہیں:
پہلی حدیث میں بڑے کا چھوٹے کی خدمت کرنا، دوسری حدیث میں چھوٹے کا بڑے کی اورتیسری حدیث میں ہم عمر کی خدمت کرنامذکور ہے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کے موقع پر مجاہدین کی خدمت کرناروزے سے زیادہ اجروثواب کا باعث ہے کیونکہ افطار کرنے والوں کو اپنے عمل کا ثواب ملا اور روزے داروں کے ثواب کا مثل بھی ان کو ثواب ملا۔
چونکہ انھوں نے روزے داروں کی خدمت کی تھی اور ان کی سواریوں کو پانی پلایا اور چارہ ڈالا تھا، اس لیے وہ روزے داروں سے زیادہ ثواب کے حق دار ٹھہرے۔

ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے ہم عمر کی خدمت کرنا جائز ہے بلکہ اپنے سے چھوٹے کی بھی۔
بڑے کی خدمت کرنا تو اخلاق فاضلہ کی علامت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2890