صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
74. بَابُ مَنْ غَزَا بِصَبِيٍّ لِلْخِدْمَةِ:
باب: اگر کسی بچے کو خدمت کے لیے جہاد میں ساتھ لے جائے۔
حدیث نمبر: 2893
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأَبِي طَلْحَةَ: الْتَمِسْ غُلَامًا مِنْ غِلْمَانِكُمْ يَخْدُمُنِي حَتَّى أَخْرُجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَخَرَجَ بِي أَبُو طَلْحَةَ مُرْدِفِي وَأَنَا غُلَامٌ رَاهَقْتُ الْحُلُمَ، فَكُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ فَكُنْتُ أَسْمَعُهُ كَثِيرًا، يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ، وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ، وَالْجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ، ثُمَّ قَدِمْنَا خَيْبَرَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا وَكَانَتْ عَرُوسًا فَاصْطَفَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ الصَّهْبَاءِ حَلَّتْ فَبَنَى بِهَا، ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آذِنْ مَنْ حَوْلَكَ فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَفِيَّةَ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَوِّي لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ، ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ فَيَضَعُ رُكْبَتَهُ فَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ نَظَرَ إِلَى أُحُدٍ، فَقَالَ: هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، ثُمَّ نَظَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا بِمِثْلِ مَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے کہا، ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عمرو نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اپنے بچوں میں سے کوئی بچہ میرے ساتھ کر دو جو خیبر کے غزوے میں میرے کام کر دیا کرے، جب کہ میں خیبر کا سفر کروں۔ ابوطلحہ اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر مجھے (انس رضی اللہ عنہ کو) لے گئے، میں اس وقت ابھی لڑکا تھا۔ بالغ ہونے کے قریب۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں قیام فرماتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا۔ اکثر میں سنتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے۔ «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل والجبن وضلع الدين وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم، عاجزی، سستی، بخل، بزدلی، قرض داری کے بوجھ اور ظالم کے اپنے اوپر غلبہ سے، آخر ہم خیبر پہنچے اور جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے جمال (ظاہری و باطنی) کا ذکر کیا گیا ان کا شوہر (یہودی) لڑائی میں کام آ گیا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں (اور چونکہ قبیلہ کے سردار کی لڑکی تھیں) اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کا اکرام کرنے کے لیے کہا) انہیں اپنے لیے پسند فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر وہاں سے چلے۔ جب ہم سدا الصبہاء پر پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خلوت کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیس (کھجور، پنیر اور گھی سے تیار کیا ہوا ایک کھانا) تیار کرا کر ایک چھوٹے سے دستر خوان پر رکھوایا اور مجھ سے فرمایا کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو دعوت دے دو اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا ولیمہ تھا۔ آخر ہم مدینہ کی طرف چلے، انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے اپنے پیچھے (اونٹ کے کوہان کے اردگرد) اپنی عباء سے پردہ کئے ہوئے تھے (سواری پر جب صفیہ رضی اللہ عنہا سوار ہوتیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ جاتے اور اپنا گھٹنا کھڑا رکھتے اور صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پاؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے پر رکھ کر سوار ہو جاتیں۔ اس طرح ہم چلتے رہے اور جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کو دیکھا اور فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا: اے اللہ! میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اے اللہ! مدینہ کے لوگوں کو ان کی مد اور صاع میں برکت دیجئیے!
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3484  
´بعض چیزوں سے پناہ طلب کرنے کا باب۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر و بیشتر ان الفاظ سے دعا مانگتے سنتا تھا: «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل وضلع الدين وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکرو غم سے، عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر و ظلم و زیادتی سے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر وغم سے،
عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر وظلم وزیادتی سے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3484   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1540  
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من العجز، والكسل، والجبن، والبخل، والهرم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل اور کنجوسی سے اور انتہائی بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1540]
1540. اردو حاشیہ: دین و دنیا کی بھلائیوں کے حصول میں محرومی تین اسباب سے ہوتی ہے کہ انسان میں ان کے کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ‘یاسستی غالب آ جاتی ہے ‘ یا جرات کا فقدان ہوتا ہے۔ «بخل» ‏‏‏‏ سےمراد وہ کیفیت ہے کہ جہاں خرچ کرنا مشروع و مستحب ہو ‘ لیکن انسان وہاں خرچ نہ کرے۔ «ھرم» ‏‏‏‏ بڑی عمر ہونے کی یہ حالت کہ انسان دوسروں پر بوجھ بن جائے۔نہ عبادت کر سکے اور نہ دنیا کا کام۔زندگی کے فتنے یہ کہ آزمائشیں اورپریشانیاں غالب آ جائیں ‘ نیکی کا کاموں سے محروم رہے۔موت کا فتنہ یہ کہ انسان اعمال خیر سے محروم رہ جائے یا مرتے دم کلمہ توحید نصیب نہ ہو۔ اور قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے اس میں بندہ اگر پھسل یا پھنس گیا تو بہت بڑی ہلاکت ہے اور عذاب قبر سے تعوذ ‘امت کے لیے تعلیم ہے ورنہ انبیائے کرام علیہم السلام اس سے محفوظ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1540   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2893  
2893. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوطلحہ ؓسے فرمایا: اپنے بچوں میں سےکوئی بچہ میرے ساتھ کرو جو غزوہ خیبر میں میری خدمت کرے جب میں خیبر کا سفر کروں۔ حضرت ابو طلحہ ؓمجھے اپنے پیچھے بٹھا کرلے گئے۔ میں اس وقت بلوغ کے قریب لڑکا تھا۔ جب بھی رسول اللہ ﷺ راستے میں کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا تھا۔ میں بکثرت آپ کو یہ دعا پڑھتے سنتا تھا: اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اورکاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤسے۔ آخر ہم خیبر پہنچے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب خیبر کا قلعہ فتح کردیا تو آپ کے پاس حضرت صفیہ بنت حیی کی خوبصورتی کا تذکرہ ہوا جبکہ اس کا شوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے مختص فرمایا اور اسے ساتھ لے کر نکلے حتیٰ کہ جب ہم سد صبہاء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2893]
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ نے غزوۂ خیبر میں حضرت انس ؓ کو خدمت کے لیے ساتھ رکھا جو ابھی نابالغ تھے‘ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
اسی لڑائی میں حضرت صفیہ ؓ آپﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں جو ایک خاندانی خاتون تھیں اس رشتہ سے اہل سلام کو بہت سے علمی فوائد حاصل ہوئے۔
روایت ہذا میں ایک دعائے مسنونہ بھی مذکور ہوئی ہے جو بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جس کا یاد کرنا اور دعاؤں میں اسے پڑھتے رہنا بہت سے امور دینی اور دنیاوی کے لئے مفید ثابت ہوگا۔
حضرت صفیہ ؓکے تفصیلی حالات پیچھے مذکور ہوچکے ہیں اسی حدیث سے مدینہ منورہ کا بھی مثل مکہ شریف حرم ثابت ہوا۔
حضرت انس ؓ پہلے ہی سے آپ کی خدمت میں تھے مگر سفر میں ان کا پہلا موقع تھا کہ خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
دعاء مسنونہ میں لفظ ھم اور حزن ہم معنی ہی ہیں۔
فرق یہ ہے کہ ھم وہ فکر جو واقع نہیں ہوا لیکن وقوع کا خطرہ ہے‘ حزن وہ غم و فکر جو واقع ہوچکا ہے۔
حضرت انس ؓ خدمت نبوی میں پہلے ہی تھے مگر اس موقع پر بھی ان کو ہمراہ لیا گیا ان کی مدت خدمت نو سال ہے‘ احد پہاڑ کے لیے جو آپﷺ نے فرمایا وہ حقیقت پر مبنی ہے ﴿اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدِیْرٌ﴾ (البقرة: 20)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2893   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2893  
2893. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوطلحہ ؓسے فرمایا: اپنے بچوں میں سےکوئی بچہ میرے ساتھ کرو جو غزوہ خیبر میں میری خدمت کرے جب میں خیبر کا سفر کروں۔ حضرت ابو طلحہ ؓمجھے اپنے پیچھے بٹھا کرلے گئے۔ میں اس وقت بلوغ کے قریب لڑکا تھا۔ جب بھی رسول اللہ ﷺ راستے میں کہیں پڑاؤ کرتے تو میں آپ کی خدمت کرتا تھا۔ میں بکثرت آپ کو یہ دعا پڑھتے سنتا تھا: اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم اور پریشانی سے، عاجزی اورکاہلی سے، بخل اور بزدلی سے، قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے دباؤسے۔ آخر ہم خیبر پہنچے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب خیبر کا قلعہ فتح کردیا تو آپ کے پاس حضرت صفیہ بنت حیی کی خوبصورتی کا تذکرہ ہوا جبکہ اس کا شوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے مختص فرمایا اور اسے ساتھ لے کر نکلے حتیٰ کہ جب ہم سد صبہاء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2893]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہادی سفر اور غزوات میں بچوں کو خدمت کے لیے ساتھ لے جانا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ کا یہی مقصد ہے،نیز بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓنے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا آغاز غزوہ خیبر سے کیا۔
اس طرح انھوں نے صرف چار برس تک آپ کی خدمت کی،حالانکہ حضرت انس ؓ کا بیان ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کی نو یا دس برس خدمت کی تھی۔
دراصل آپ نے عمومی خدمت کا آغاز تو مدینہ طیبہ میں آتے ہی کردیا تھا، البتہ غزوہ خیبر کے وقت خصوصی خدمت کا اہتمام فرمایا،یعنی حضرت ابوطلحہ ؓنے اس جہادی سفر میں خدمت کے لیے آپ کاتعین فرمایاتھا، عمومی خدمات تو پہلے ہی بجالاتے تھے۔
اس حدیث میں کئی ایک واقعات ہیں جن کی موقع ومحل کے مطابق تشریح ہوگی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2893