سنن ترمذي
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
30. باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2466
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: " يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ اسْمُهُ: هُرْمُزُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یکسو ہو جا، میں تیرا سینہ استغناء و بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 2 (4107) (تحفة الأشراف: 14881) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4107)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4107  
´دنیا کے غم و فکر کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یک سو ہو جا تو میں تیرا سینہ بے نیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کر دوں گا، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیتوں سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4107]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان کی تخلیق کا اصل مقصد عبادت ہے روزی کمانے کا مقصد صرف اتنی جسمانی قوت کا حصول ہے جس سے اللہ کے احکام کی تعمیل کما حقہ ہوسکے۔

(2)
عبادت کے لیے فارغ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روز مرہ کے پروگرام میں بنیادی اہمیت عبادت کو دی جائے اور دنیاوی ضروریات کے دوران میں بھی اللہ کے احکام کی تعمیل کی نیت ہو، تاکہ یہ اعمال بھی عبادت بن جائیں۔

(3)
دینی اور دنیاوی اعمال میں فرائض کو نوافل پر فوقیت حاصل ہے لہٰذا اگر کسی نفلی عمل سے فرض کی ادائیگی متاثر ہوتی ہوتو فرض کو اہمیت دی جائے نفلی کام کو کسی اور مناسب موقع کے لیے مؤخر کردیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4107