سنن ترمذي
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
58. باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2513
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ " , هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کی طرف دیکھو جو دنیاوی اعتبار سے تم سے کم تر ہوں اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہوں، اس طرح زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری نہ کرو، جو اس کی طرف سے تم پر ہوئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2963/9)، سنن ابن ماجہ/الزہد 9 (4142)، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الرقاق 30 (6490)، وصحیح مسلم/الزہد (2963/8) (تحفة الأشراف: 12467، و12514)، و مسند احمد (2/254، 482) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4142)
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1237  
´اپنے سے کم نعمت والوں کی طرف دیکھو`
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏انظروا إلى من هو اسفل منكم ولا تنظروا إلى من هو فوقكم فهو اجدر ان لا تزدروا نعمة الله عليكم متفق عليه»
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی اس نعمت کو حقیر نہ جانو جو تم پر ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1237]

تخریج:
[بخاري 6490]،
[مسلم، الزهد 7428]،
[بلوغ المرام: 1237]

مفردات:
«أسفل» لام پر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں رفع اس لئے کہ یہ ھو کی خبر ہے اور نصب اس لئے کہ یہ ھو کی محذوف خبر کاسن کے لئے مفعول فیہ (ظرف) ہے۔
«أن لا تزدروا» یہ باب افتعال سے ہے اس کا مادہ زری ہے۔ «زريت عليه» اور «ازريت به» میں نے اس کی تحقیر کی یہ اصل میں «تزتريوا» تھا افتعال کی تاء اگر زاء کے بعد آ جائے تو اسے دال سے بدل دیتے ہیں۔

فوائد:
➊ اگر کوئی شخص انہی لوگوں کی طرف دیکھے جنہیں دنیا کی نعمتیں اس سے زیادہ دی گئی ہیں تو خطرہ ہے کہ اس کے دل میں خالق کا شکوہ پیدا ہو جائے یا اس شخص پر حسد پیدا ہو جائے۔ اور یہ دونوں چیزیں اس کی بربادی کا باعث ہیں۔ حدیث میں اس کا علاج بتایا گیا ہے۔ جب وہ ان لوگوں کو دیکھے گا جو دنیاوی نعمتوں میں اس سے بھی نیچے ہیں اس کا دل خالق کے شکر، اپنی حالت پر صبر و قناعت اور دوسرے بھائیوں پر رحم سے بھر جائے گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہیں جانے گا۔
➋ اپنے سے نیچے سے مراد وہ ہے جو دنیاوی نعمتوں میں اس سے کمتر ہے۔ اگر تندرست ہے تو بیماری میں مبتلا لوگوں کی طرف دیکھے اس سے اسے اللہ کی عطا کردہ صحت پر شکر کی نعمت حاصل ہو گی۔ اگر بیمار ہے تو انہیں دیکھے جو اس سے بھی زیادہ بیمار ہیں بلکہ ان کے اعضاء ہی نہیں ہیں وہ اندھے بہرے، لنگڑے یا کوڑھی ہیں۔ اس سے اسے اپنی عافیت کی قدر معلوم ہو گی۔ اگر تنگدست ہے تو انہیں دیکھے جو اس سے بھی بڑھ کر فقیر ہیں جنہیں محتاجی نے سراسر ذلیل کر دیا ہے۔ یا وہ قرض کے خوفناک بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ غرض دنیا کی کسی آزمائش میں مبتلا ہو اسے اپنے سے بڑھ کر مصیبت میں مبتلا لوگ ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے ان کے حال پر غور کرے گا تو اسے شکر، صبر اور قناعت کی نعمت حاصل ہو گی۔
➌ دین کے معاملات میں ہمیشہ ان لوگوں کو دیکھے جو اس سے اوپر ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ» [83-المطففين:26]
اور اسی (جنت) میں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت کریں وہ لوگ جو ایک دوسرے کے مقابلے میں کسی چیز میں رغبت کرتے ہیں۔
اور فرمایا:
«فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ» [5-المائدة:48]
پسں نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔
جب نعمتوں میں اپنے سے کمتر لوگوں کو اور نیکیوں میں اپنے سے بالاتر لوگوں کو دیکھے گا۔ تو پہلی نظر سے اللہ کی نعمتوں پر شکر کرے گا اور اللہ پر خوش ہو جائے گا۔ اور دوسری نظر سے اسے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہو گا، پروردگار کے سامنے حیا کی وجہ سے انتہائی عجز اختیار کرے گا اور ندامت کے احساس سے گناہوں سے تائب ہو کر اپنے سے بالاتر لوگوں کی صف میں شامل ہونے کی کو شش کرے گا۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 29   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4142  
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح امید ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔‏‏‏‏ ابومعاویہ نے «فوقكم» کی جگہ «عليكم» کا لفظ استعمال کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4142]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
نیچے والے سے مراد وہ شخص ہے جو کسی نعمت میں ہم سے کم ہے اور اوپر والے سے مراد وہ شخص ہے جو کسی نعمت میں ہم سے بڑھ کر ہے۔

(2)
اپنے سے زیادہ نعمت والے کو دیکھنے سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے یہ نعمت کم حاصل ہےاس کمی کو شیطان اس انداز سے پیش کرتا ہے گویا یہ نعمت حاصل ہی نہیں۔
اس طرح محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے جس سے شکر کے بجائے اللہ سے شکوہ کرنے کو جی چاہتا ہے جو ناشکری کی ایک بڑی صورت ہے۔

(3)
اپنے سے کم تر پر نظر ڈالنے سے حاصل شدہ نعمت کی قدر معلوم ہوتی ہے جس سے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

(4)
ہر نعمت کے بارے میں یہ کیفیت ہے کہ ایک فرد کو وہ نعمت کسی سے کم ملی ہے تو وہی نعمت اسے کسی دوسرے سے زیادہ بھی ملی ہے۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد کو وہ نعمت کسی سے کم ملی ہے تو کوئی دوسری نعمت اسے زیادہ بھی ملی ہے جیسے ایک شخص کسی سے کم دولت رکھتا ہےاور کسی سے زیادہ دولت مند بھی ہے۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ اس سے دولت میں کم ہے تو صحت وقوت میں اس سے بڑھ کر ہےاگر حسن صورت میں کم ہے تو علم وفضل یا حسن سیر ت میں میں اس سے زیادہ بھی ہے لہٰذا احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اللہ سے شکوہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4142