صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
78. بَابُ التَّحْرِيضِ عَلَى الرَّمْيِ:
باب: تیر اندازی کی ترغیب دلانے کے بیان میں۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ الانفال میں) «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم» اور ان (کافروں) کے مقابلے کے لیے جس قدر بھی تم سے ہو سکے سامان تیار رکھو، قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے، جس کے ذریعہ سے تم اپنا رعب رکھتے ہو اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر۔
حدیث نمبر: 2899
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا ارْمُوا، وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ، قَالَ: فَأَمْسَكَ أَحَدُ الْفَرِيقَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكُمْ لَا تَرْمُونَ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْمُوا فَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، انہوں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ بنو اسلم کے چند لوگوں پر گزر ہوا جو تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسماعیل علیہ السلام کے بیٹو! تیر اندازی کرو کہ تمہارے بزرگ دادا اسماعیل علیہ السلام بھی تیرانداز تھے۔ ہاں! تیر اندازی کرو، میں بنی فلاں (ابن الاورع رضی اللہ عنہ) کی طرف ہوں۔ بیان کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو (مقابلے میں حصہ لینے والے) دوسرے ایک فریق نے ہاتھ روک لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات پیش آئی، تم لوگوں نے تیر اندازی بند کیوں کر دی؟ دوسرے فریق نے عرض کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو بھلا ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تیر اندازی جاری رکھو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2899  
2899. حضر ت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ اسلم کے چند صحابہ کرام ؓکے پاس سے گزرے جو تیر اندازی کی مشق کررہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل!تیر اندازی کروکیونکہ تمہارے بزرگ دادا حضرت اسماعیل ؑ بھی تیر انداز تھے۔ ہاں تم تیر اندازی کرو، میں بنو فلاں کی طرف ہوں۔ جب آپ ایک فریق کے ساتھ ہوگئے تو دوسرے فریق نے ہاتھ روک لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیابات ہے، تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟ دوسرے فریق نے عرض کیا: جب آپ ایک فریق کے ساتھ ہیں تو ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اچھا تم تیر اندازی جاری رکھو، میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2899]
حدیث حاشیہ:
سیرۃ طیبہ کے مطالعہ کرنے والوں پر واضح ہے کہ آپﷺ نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ سپاہی بنانے کی کوشش فرمائی اور مجاہدانہ زندگی گزارنے کے لئے شب و روز تلقین فرماتے رہے جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوا کہ عربوں کے جد امجد حضرت اسماعیل ؑ بھی بڑے زبردست سپاہی تھے اور نیزہ بازی ہی ان کا مشغلہ تھا۔
آج کل بندوق‘ توپ‘ ہوائی جہاز اور جتنے بھی آلات حرب وجود میں آچکے ہیں وہ سب اسی ذیل ہیں۔
ان سب میں مہارت پیدا کرنا سب کو اپنانا یہ خدا پرستی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر ان کا سیکھنا فرض ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2899   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2899  
2899. حضر ت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ اسلم کے چند صحابہ کرام ؓکے پاس سے گزرے جو تیر اندازی کی مشق کررہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل!تیر اندازی کروکیونکہ تمہارے بزرگ دادا حضرت اسماعیل ؑ بھی تیر انداز تھے۔ ہاں تم تیر اندازی کرو، میں بنو فلاں کی طرف ہوں۔ جب آپ ایک فریق کے ساتھ ہوگئے تو دوسرے فریق نے ہاتھ روک لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیابات ہے، تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟ دوسرے فریق نے عرض کیا: جب آپ ایک فریق کے ساتھ ہیں تو ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اچھا تم تیر اندازی جاری رکھو، میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2899]
حدیث حاشیہ:

سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تمام صحابہ کرام ؓ کو سپاہیانہ اور مجاہدانہ زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہو اکہ حضرت اسماعیل ؑبھی بہت بڑے سپاہی تھے اور نیز ہ بازی ہی ان کا مشغلہ تھا۔
آج کل بندوق،توپ،میزائل الغرض جتنے بھی جنگی ہتھیار وجود میں آچکے ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔
ان سب میں مہارت پیدا کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس رمی کو ہی طاقت قراردیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث 4946(1917)
چنانچہ آج ہر حکومت کو رمی پر فخر ہے۔
جس حکومت کو رمی جیسی پوری قوت حاصل ہے، اس کی دوسروں پر برتری ہے، بم، ایٹم بم اور میزائل وغیرہ سب کو رمی شامل ہے اور سب آلات جنگ اسی رمی کے ضمن میں آتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2899