سنن ترمذي
كتاب صفة الجنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جنت کا وصف اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ
2. باب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَنَعِيمِهَا
باب: جنت کا وصف اور اس کی نعمتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2526
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ زِيَادٍ الطَّائِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا لَنَا إِذَا كُنَّا عِنْدَكَ رَقَّتْ قُلُوبُنَا وَزَهِدْنَا فِي الدُّنْيَا وَكُنَّا مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ , فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ فَآنَسْنَا أَهَالِينَا وَشَمَمْنَا أَوْلَادَنَا أَنْكَرْنَا أَنْفُسَنَا! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِي كُنْتُمْ عَلَى حَالِكُمْ ذَلِكَ لَزَارَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي بُيُوتِكُمْ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَاءَ اللَّهُ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ كَيْ يُذْنِبُوا فَيَغْفِرَ لَهُمْ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مِمَّ خُلِقَ الْخَلْقُ؟ قَالَ: " مِنَ الْمَاءِ "، قُلْنَا: الْجَنَّةُ مَا بِنَاؤُهَا؟ قَالَ: " لَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ وَلَبِنَةٌ مِنْ ذَهَبٍ وَمِلَاطُهَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالْيَاقُوتُ وَتُرْبَتُهَا الزَّعْفَرَانُ، مَنْ دَخَلَهَا يَنْعَمْ وَلَا يَبْأَسْ، وَيَخْلُدْ وَلَا يَمُوتْ، لَا تَبْلَى ثِيَابُهُمْ، وَلَا يَفْنَى شَبَابُهُمْ ". (حديث قدسي) (حديث موقوف) ثُمَّ قَالَ: " ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الْغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَلَيْسَ هُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ بِإِسْنَادٍ آخَرَ، عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آخر کیا وجہ ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دلوں پر رقت طاری رہتی ہے اور ہم دنیا سے بیزار ہوتے ہیں اور آخرت والوں میں سے ہوتے ہیں، لیکن جب ہم آپ سے جدا ہو کر اپنے بال بچوں میں چلے جاتے ہیں اور ان میں گھل مل جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں کو بدلا ہوا پاتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اسی حالت و کیفیت میں رہو جس حالت و کیفیت میں میرے پاس سے نکلتے ہو تو تم سے فرشتے تمہارے گھروں میں ملاقات کریں، اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق کو پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے ۱؎، پھر اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مخلوق کو کس چیز سے پیدا کیا گیا؟ آپ نے فرمایا: پانی سے، ہم نے عرض کیا: جنت کس چیز سے بنی ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک سونے کی اور اس کا گارا مشک اذفر کا ہے اور اس کے کنکر موتی اور یاقوت کے ہیں، اور زعفران اس کی مٹی ہے، جو اس میں داخل ہو گا وہ عیش و آرام کرے گا، کبھی تکلیف نہیں پائے گا اور اس میں ہمیشہ رہے گا اسے کبھی موت نہیں آئے گی، ان کے کپڑے پرانے نہیں ہوں گے اور ان کی جوانی کبھی فنا نہیں ہو گی، پھر آپ نے فرمایا: تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: پہلا امام عادل ہے، دوسرا روزہ دار جب وہ افطار کرے، اور تیسرا مظلوم جب کہ وہ بد دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ (اس کی بد دعا کو) بادل کے اوپر اٹھا لیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے: قسم ہے میری عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر ہی سہی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے اور نہ ہی میرے نزدیک یہ متصل ہے،
۲- یہ حدیث دوسری سند سے ابومدلہ کے واسطہ سے بھی آئی ہے جسے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اور ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12905) وانظر مسند احمد (2/304، 305) (ضعیف) (مؤلف نے اس سند کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے، سند میں زیاد الطائی مجہول راوی ہے، جس نے ابوہریرہ سے مرسل روایت کی ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے، جیسا کہ مؤلف نے صراحت فرمائی، پھر ابو مدلہ کی روایت کا ذکر کیا، جو ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کے اکثر فقرے ثابت ہیں، حافظ ابن حجر نے ابو مدلہ مولی عائشہ کو مقبول کہا ہے، حدیث میں مما خلق الخلق کا فقرہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، نیز ثلاث لا ترد...آخر حدیث تک بھی ضعیف ہے (ضعیف الجامع 2592، والضعیفة 1359)، لیکن حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، جو صحیح مسلم (التوبة 2 /2749)، ترمذی (2514، 2452)، ابن ماجہ (4236) اور مسند احمد (4/187، 346) میں حنظلہ الاسیدی سے مروی ہے اور دوسرے فقرہ ولو لم تذنبوا کی مختلف طرق سے البانی نے تخریج کر کے اس کی تصحیح کی ہے: الصحیحة رقم 967، 968، 969، 970 و 1950، 1951، 1965) اور الجنة بناؤها لبنة...ولا يفنى شبابهم کا فقرہ بھی حسن ہے (السراج المنیر8083)»

وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ گناہ تو ہر انسان سے ہوتا ہے، لیکن وہ لوگ اللہ کو زیادہ پسند ہیں جو گناہ کر کے اس پر اڑتے نہیں بلکہ توبہ و استغفار کرتے ہیں، اور اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کے ساتھ گڑگڑاتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اللہ کو گناہ کا ارتکاب کرنا پسند ہے، بلکہ اس حدیث کا مقصد توبہ و استغفار کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح - دون قوله: " مم خلق الخلق ... " -، الصحيحة (2 / 692 - 693) ، غاية المرام في تخريج أحاديث الحلال والحرام (373)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1752  
´روزہ دار کی دعا رد نہ ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: ایک تو عادل امام کی، دوسرے روزہ دار کی یہاں تک کہ روزہ کھولے، تیسرے مظلوم کی، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قیامت کے دن بادل سے اوپر اٹھائے گا، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری عزت کی قسم! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گرچہ کچھ زمانہ کے بعد ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1752]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
روزہ کھولنے کا وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہے اس لئے اس مو قع پر اپنے لئے اور اپنے اہل و عیا ل کے لئے خیرو برکت اور ضرورت پوری ہونے کی دعا کرنا مناسب ہے۔

(2)
ظلم سےپرہیز کرنا انتہائی ضروری ہے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن جائے گا (صحیح البخاري، المظالم، باب الظلم ظلمات یوم القیامة، حدیث: 2447)

(3)
مظلو م کی دعا سے مراد ظالم کے خلا ف بد دعا ہے یا ظلم سے نجات کے لئے اللہ سے دعا ہے۔

(4)
بادل سے مراد وہ بادل ہے جواس آیت مبا رکہ میں مذکور ہے۔
﴿وَيَوْمَ تَشَقَّقُ ٱلسَّمَآءُ بِٱلْغَمَـٰمِ وَنُزِّلَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ تَنزِيلًا﴾  (الفرقان، 25: 25)
 جس دن بادلوں کے ساتھ آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے پے در پے نیچے اتارے جا ئیں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1752   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2526  
´جنت کا وصف اور اس کی نعمتوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آخر کیا وجہ ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دلوں پر رقت طاری رہتی ہے اور ہم دنیا سے بیزار ہوتے ہیں اور آخرت والوں میں سے ہوتے ہیں، لیکن جب ہم آپ سے جدا ہو کر اپنے بال بچوں میں چلے جاتے ہیں اور ان میں گھل مل جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں کو بدلا ہوا پاتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اسی حالت و کیفیت میں رہو جس حالت و کیفیت میں میرے پاس سے نکلتے ہو تو تم سے فرشتے تمہارے گھروں میں ملاقات کریں، اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق کو پیدا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2526]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ گناہ تو ہر انسان سے ہوتا ہے،
لیکن وہ لوگ اللہ کو زیادہ پسند ہیں جو گناہ کرکے اس پر اڑتے نہیں بلکہ توبہ و استغفار کرتے ہیں،
اور اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کے ساتھ گڑ گڑاتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں،
اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اللہ کو گناہ کا ارتکاب کرنا پسند ہے،
بلکہ اس حدیث کا مقصد تو بہ و استغفار کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔

نوٹ:
(مؤلف نے اس سند کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے،
سند میں زیاد الطائی مجہول راوی ہے،
جس نے ابوہریرہ سے مرسل روایت کی ہے،
یعنی سند میں انقطاع ہے،
جیسا کہ مؤلف نے صراحت فرمائی،
پھر ابومدلہ کی روایت کا ذکر کیا،
جو ضعیف راوی ہیں،
لیکن حدیث کے اکثر فقرے ثابت ہیں،
حافظ ابن حجر نے ابومدلہ مولی عائشہ کو مقبول کہا ہے،
حدیث میں مما خلق الخلق کا فقرہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے،
نیز ثلاث لا ترد...آخر حدیث تک بھی ضعیف ہے (ضعیف الجامع 2592،
والضعیفة 1359)
،
لیکن حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے،
جو صحیح مسلم (التوبة: 2 /2749)،
ترمذی (2514، 2452)،
ابن ماجة (4236) اور مسند أحمد (4/187، 346) میں حنظلہ الاسیدی سے مروی ہے اور دوسرے فقرہ ولو لم تذنبوا کی مختلف طرق سے البانی نے تخریج کرکے اس کی تصحیح کی ہے:
الصحیحة رقم 967، 968، 969، 970 و 1950، 1951، 1965)
 اور الجنة بناؤها لبنة...ولا يفنى شبابهم کا فقرہ بھی حسن ہے (السراج المنیر8083)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2526   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3598  
´دنیا و آخرت میں عافیت طلبی کا بیان`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی: ایک روزہ دار، جب تک کہ روزہ نہ کھول لے، (دوسرے) امام عادل، (تیسرے) مظلوم، اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور رب کہتا ہے: میری عزت (قدرت) کی قسم! میں تیری مدد کروں گا، بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3598]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ کے لفظ سے ضعیف ہے،
اور اَلمُسَافِرُ کے لفظ سے صحیح ہے،
سند میں ابومدلہ مولی عائشہ'' مجہول راوی ہے،
نیز یہ حدیث ابوہریرہ ہی کی صحیح حدیث جس میں اَلمُسُافِرُ کا لفظ ہے کے خلاف ہے،
ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم: 1358،
والصحیحة رقم: 596)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3598