صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
80. بَابُ الْمِجَنِّ وَمَنْ يَتَتَرَّسُ بِتُرْسِ صَاحِبِهِ:
باب: ڈھال کا بیان اور جو اپنے ساتھی کی ڈھال کو استعمال کرے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 2905
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفَدِّي رَجُلًا بَعْدَ سَعْدٍ سَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن شداد نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے (دوسری سند) ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن شداد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بعد میں نے کسی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ آپ نے خود کو ان پر صدقے کیا ہو۔ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: تیر برساؤ (سعد) تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث129  
´سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے لیے اپنے والدین کو جمع کیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے دن سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: اے سعد! تم تیر چلاؤ، میرے ماں اور باپ تم پر فدا ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 129]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ سعادت حاصل ہے، جیسے حدیث 123 میں بیان ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یا تو اس کا علم نہیں ہوا یا حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست یہ الفاظ نہیں سنے، جبکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو یہ الفاظ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں فرمائے گئے۔

(2)
دشمن پر تیر اندازی کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی تلوار سے مقابلہ کرنے کی ہے۔
موجودہ دور میں پھینکنے والے آلات کی بہت اہمیت ہے، خواہ وہ رائفل یا کلاشنکوف کی گولی ہو یا کسی قسم کے توپ یا ٹینک کا گولہ یا میزائل وغیرہ ہوں، ان سب کافروں کے خلاف استعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا باعث ہے، لہذا مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کے لیے ہر قسم کا اسلحہ تیار کرنا چاہیے اور اس کا استعمال سیکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 129   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2905  
2905. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بعد کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کےمتعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہوکہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ کو ان کے متعلق فرماتے ہوئے سنا: اے سعد!تیر مارو تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2905]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے تیر اندازی کی فضیلت ثابت ہوئی اس طور پر کہ آنحضرتﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی تیر اندازی پر ان کو شاباش پیش فرمائی۔
معلوم ہوا کہ فنون حرب جن میں مہارت پیدا کرنے سے اللہ پاک کی رضا مطلوب ہو بڑی فضیلت اور درجات رکھتے ہیں۔
عصر حاضر کے جملہ آلات حرب میں مہارت کو اسی پر کیا جاسکتا ہے صد افسوس کہ مسلمانوں نے ان نیک کاموں کو قطعاً بھلا دیا جس کی سزا وہ مختلف عذابوں کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2905   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2905  
2905. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بعد کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کےمتعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہوکہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ کو ان کے متعلق فرماتے ہوئے سنا: اے سعد!تیر مارو تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2905]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺنے غزوہ خندق کے موقع پر یہی الفاظ حضرت زبیر ؓ کے لیے استعمال کیے تھے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث 3720)
شاید حضرت علی ؓ کو اس کا علم نہیں ہوسکا۔
اس کلمے سے مراد انھیں دعا دینا اور اپنی رضا مندی کا اظہار کرنا ہے۔

اس حدیث سے تیر اندازی کی فضیلت ثابت ہوئی، وہ اس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو ان کی تیراندازی پر شاباش دی۔
معلوم ہوا کہ فنون حرب میں مہارت پیداکرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہوبڑی فضیلت کا باعث ہیں۔

عصر حاضر کے جملہ آلات حرب میں مہارت کو اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
پھر تیر انداز نے اپنا تحفظ بھی کرنا ہوتا ہے جو ڈھال کے بغیرممکن نہیں۔
اس بنا پر ڈھال کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2905