صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
82. بَابُ الْحَمَائِلِ وَتَعْلِيقِ السَّيْفِ بِالْعُنُقِ:
باب: تلواروں کی حمائل اور تلوار کا گلے میں لٹکانا۔
حدیث نمبر: 2908
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ:" لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا، ثُمَّ قَالَ: وَجَدْنَاهُ بَحْرًا، أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر (ایک آواز سن کر) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2772  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں میں سب سے ممتاز تھے۔

(2)
مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہوتو ہر مسلمان کو اس کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار ہونا چاہیے۔

(3)
گھوڑے پر زین وغیرہ ڈالے بغیر سوار ہونا چاہیے جو عوام کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔

(5)
کسی کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سے ساتھیوں اور ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے البتہ بے موقع تعریف جس سے فخر وتکبر کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور خوشامد ممنوع ہے۔

(6)
رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ سے کثیر مواقع پر حاصل ہونے والی برکت رسول اللہﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1685  
´گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1685]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1685   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4988  
´الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4988]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہﷺ نے گھوڑے کی سبک رفتاری کو اس کے سمندر ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
تو اس سے محدث رحمتہ اللہ کا استد لال یہ ہے کہ اگر اندھیرے کی نسبت سے عشاء کی نماز کو کبھی عتمہ یاسوتے کی نماز کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
2) صاحب ایمان کو جری اور بہادر ہوناچاہئےاور اپنے معاشرے میں عام اصلاحی کاموں میں سب سے آگے ہونا چاہئےجیسے رسول اللہﷺ تھے۔
3) کبھی کبھار عام استعمال کی چیزیں عاریتا لے لینےمیں کوئی قباحت نہیں ہےاور مسلمانوں کو اس سلسلے میں بخیل نہیں ہونا چاہئے لیکن عاریتا لینے والے کوبھی چاہئے کہ فراغت کے بعد اس چیز کو پوری ذمے داری کےساتھ واپس کردے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4988   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2908  
2908. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ پر سخت خوف و ہراس طاری ہوا تو وہ خوفناک آواز کی طرف نکلے۔ نبی کریم ﷺ سب سے پہلے آگے روانہ ہوئے اور واقعے کی تحقیق کی۔ آپ اس وقت حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایسے گھوڑے پر سوار تھے جس پر زین نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور فرمارہےتھے: مت گھبراؤ، تمھیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ہم نے اس گھوڑے کو سمندر (کی طرح سبک رفتار) پایا۔ یا (یہ) فرمایا: بلاشبہ یہ (گھوڑا) سمندر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2908]
حدیث حاشیہ:
مدینہ میں ایک دفعہ رات کو دشمن کے حملے کی افواہ پھیل گئی تھی۔
اسی کی تحقیق کے لئے آپ حضرت ﷺ خود بنفس نفیس نکلے اور چاروں طرف دور دور تک ملاحظہ فرما کر واپس ہوئے اور لوگوں کو بتلایا کہ کچھ خطرہ نہیں ہے۔
جس گھوڑے پر آپﷺ سوار تھے اس کی تیز رفتاری سے بہت خوش ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2908   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2908  
2908. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ پر سخت خوف و ہراس طاری ہوا تو وہ خوفناک آواز کی طرف نکلے۔ نبی کریم ﷺ سب سے پہلے آگے روانہ ہوئے اور واقعے کی تحقیق کی۔ آپ اس وقت حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایسے گھوڑے پر سوار تھے جس پر زین نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے اپنے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور فرمارہےتھے: مت گھبراؤ، تمھیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ہم نے اس گھوڑے کو سمندر (کی طرح سبک رفتار) پایا۔ یا (یہ) فرمایا: بلاشبہ یہ (گھوڑا) سمندر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2908]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں تلوار کے میان کا ذکر نہیں ہے لیکن تلوار کے ذکر میں اس کا ذکر خود بخود آجاتاہے کیونکہ اس کے بغیر تلوار نہیں لٹکائی جاسکتی۔

رسول اللہ ﷺنے حضرت ابوطلحہ ؓ کے گھوڑے کی تعریف فرمائی کہ وہ دریا کے پانی کی طرح تیز چلتاہے گویا وہ پانی پر تیرتا ہے اور سواری کرنے والے کو ذرہ بھر تکلیف نہیں ہوتی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2908