سنن ترمذي
كتاب صفة جهنم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جہنم اور اس کی ہولناکیوں کا تذکرہ
10. باب مِنْهُ
باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 2598
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُخْرَجُ مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنَ الْإِيمَانِ " , قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَنْ شَكَّ فَلْيَقْرَأْ: إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ سورة النساء آية 40 , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم سے وہ آدمی نکلے گا جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو گا، ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے کہا: جس کو شک ہو وہ یہ آیت پڑھے «إن الله لا يظلم مثقال ذرة» اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے (النساء: ۴۰)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف و راجع: صحیح البخاری/التوحید 24 (7439)، و صحیح مسلم/الإیمان 81 (183) (تحفة الأشراف: 4181)، وانظر مسند احمد (3/94) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 22  
´ایمان کے باوجود معاصی کا ضرر و نقصان`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 22]

تشریح:
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جس کسی کے دل میں ایمان کم سے کم ہو گا۔ کسی نہ کسی دن وہ مشیت ایزدی کے تحت اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر نجات کا مدار تو ہے۔ مگر اللہ کے یہاں درجات اعمال ہی سے ملیں گے۔ جس قدر اعمال عمدہ اور نیک ہوں گے اس قدر اس کی عزت ہو گی۔

اس سے ظاہر ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ کچھ لوگ ایمان میں ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کے قلوب میں ایمان محض ایک رائی کے دانہ برابر ہوتا ہے۔ حدیث نبوی میں اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ جملہ ایمان داروں کا ایمان یکساں مانتے ہیں اور کمی بیشی کے قائل نہیں ان کے اس قول کا خود اندازہ کر لینا چاہئیے۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ووجه مطابقة هذاالحديث للترجمة ظاهر وارادبايراده الرد على المرجئة لما فيه من ضرر المعاصي مع الايمان وعلي المعتزلة فى ان المعاصي موجبة للخلود»
یعنی اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور حضرت مصنف رحمہ اللہ کا یہاں اس حدیث کے لانے سے مقصد مرجیہ کی تردید کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایمان کے باوجود معاصی کا ضرر و نقصان بتلایا گیا ہے اور معتزلہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ گنہگار لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 22   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 22  
´کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ تَفَاضُلِ أَهْلِ الإِيمَانِ فِي الأَعْمَالِ:: 22]

تخريج الحديث:
[116۔ البخاري فى: 2 كتاب الإيمان: 15 باب تفاصيل أهل الإيمان فى الأعمال، مسلم 184، ابن حبان 182]

لغوی توضیح:
«صَفْرَاء» زردی مائل۔
«مُلْتَوِيَة» پیچ در پیچ مڑا ہوا۔

فھم الحدیث:
درج بالا احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے بلکہ جتنا اللہ چاہے گا عذاب پا کر یا تو شفاعت کے ذریعے یا پھر اللہ کی رحمت سے جہنم سے نکال لئے جائیں گے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ مشرک کو کبھی بھی جہنم سے نہیں نکالا جائے اور نہ ہی اسے کوئی شفاعت فائدہ دے گی۔ قرآن کریم میں کفار و مشرکین کے بارے میں ہے کہ:
«فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ» [المدثر: 48]
انہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت فائدہ نہیں دے گی۔
اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ میری شفاعت صرف اسے نصیب ہو گی جو اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا تھا۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب اختباء النبى دعوة الشفاعة لامته 199]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 116