صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
83. بَابُ حِلْيَةِ السُّيُوفِ:
باب: تلوار کی آرائش کرنا۔
حدیث نمبر: 2909
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ حَبِيبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ:" لَقَدْ فَتَحَ الْفُتُوحَ قَوْمٌ مَا كَانَتْ حِلْيَةُ سُيُوفِهِمُ الذَّهَبَ، وَلَا الْفِضَّةَ إِنَّمَا كَانَتْ حِلْيَتُهُمُ الْعَلَابِيَّ، وَالْآنُكَ وَالْحَدِيدَ".
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو اوزاعی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سلیمان بن حبیب سے سنا، کہا میں نے ابوامامہ باہلی سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ ایک قوم (صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے بہت سی فتوحات کیں اور ان کی تلواروں کی آرائش سونے چاندی سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اونٹ کی پشت کا چمڑہ، سیسہ اور لوہا ان کی تلواروں کے زیور تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2909  
2909. حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ یہ سب فتوحات ان لوگوں نے حاصل کی ہیں جن کی تلواروں پر سونا نہیں لگا تھا اور نہ ان پر چاندی ہی جڑی ہوئی تھی بلکہ ان کی تلواروں پر چمڑے، سیسے اور لوہے کا معمولی کام ہوتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2909]
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں تلواروں کی زیبائش سونے چاندی سے کیا کرتے تھے۔
مسلمانوں نے ظاہری زیبائش سے قطع نظر کرکے تلواروں کی زیبائش اور مصنوعی عمدگی سیسے اور لوہے سے کی کہ در حقیقت یہی ان کی زیبائش تھی۔
آلات حرب کو بہتر سے بہتر شکل میں رکھنا آج بھی جملہ متمدن اقوام عالم کا دستور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2909   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2909  
2909. حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ یہ سب فتوحات ان لوگوں نے حاصل کی ہیں جن کی تلواروں پر سونا نہیں لگا تھا اور نہ ان پر چاندی ہی جڑی ہوئی تھی بلکہ ان کی تلواروں پر چمڑے، سیسے اور لوہے کا معمولی کام ہوتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2909]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں اس حدیث کا پس منظر ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت سلیمان بن حبیب کی سرکردگی میں ایک فاتح قوم حضرت ابوامامہ ؓ کے پاس آئی تو ان کی تلواروں پر چاندی کا طمع تھا۔
حضرت ابوامامہ ؓ انھیں دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور یہ حدیث بیان کی۔
(سنن ابن ماجة، الجھاد، حدیث: 2807)
دور جاہلیت میں لوگ فخر و مباہات کے طور پر تلواروں کی زیبائش سونے اورچاندی سے کرتے تھے،مسلمانوں نے ظاہری آرائش سے قطع نظر تلواروں کی زیبائش اور مصنوعی عمدگی سیسے اور لوہے سے کی۔
آلات جنگ کو بہتر سے بہتر شکل میں رکھنا آج بھی اقوام عالم کا دستور ہے۔
صحابہ کرام ؓ اس سے بھی بے نیاز تھے کیونکہ وہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود ایمانی قوت کے باعث دشمنوں پرغالب تھے،انھیں کسی مصنوعی طاقت کی حاجت نہیں تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2909