سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: علم اور فہم دین
8. باب مَا جَاءَ فِي تَعْظِيمِ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات کی نسبت کرنا گناہ عظیم ہے۔
حدیث نمبر: 2660
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ يَلِجُ فِي النَّارِ " , وفي الباب عن أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَبُرَيْدَةَ، وَأَبِي مُوسَى الْغَافِقِيِّ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَالْمُنْقَعِ، وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَقَالَ وَكِيعٌ: لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، زبیر، سعید بن زید، عبداللہ بن عمرو، انس، جابر، ابن عباس، ابوسعید، عمرو بن عبسہ، عقبہ بن عامر، معاویہ، بریدہ، ابوموسیٰ، ابوامامہ، عبداللہ بن عمر، مقنع اور اوس ثقفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 38 (106)، صحیح مسلم/المقدمة 2 (1)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 4 (31) (تحفة الأشراف: 10087)، و مسند احمد (1/83، 123، 150) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 106  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجْ النَّارَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر جھوٹ مت بولو۔ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 106]

تشریح:
یعنی مجھ پر جھوٹ باندھنے والے کو چاہئیے کہ وہ دوزخ میں داخل ہونے کو تیار رہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 106   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث38  
´جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی حدیث روایت کرنے والے کی مذمت۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مجھ سے کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 38]
اردو حاشہ:
➊ جس طرح جھوٹی حدیث گھڑنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے،
اسی طرح اس جعلی حدیث کو دوسروں تک پہنچانا بھی بڑا جرم ہے۔
ایسی حدیث روایت کرنے والا اسے گھڑنے والے کے ساتھ گناہ
میں شریک ہے، لہٰذا وہ بھی اسی وعید کا مستحق ہے، جو حدیث گھڑنے
والے کے حق میں وارد ہے، یعنی وہ جہنمی ہے۔

«الْكَاذِبَيْنِ» حدیث کا یہ لفظ دو طرح سے پڑھا گیا ہے،
تثنیہ کے صیغے سے «الْكَاذِبَيْنِ»
 اور جمع کے صیغے سے «الْكَاذِبِيْنَ»
 مذکورہ بالا ترجمہ تثنیہ کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔
جمع کے لحاظ سے ترجمہ یوں ہو گا:
وہ بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔
اس اختلاف سے اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

➌ ان دو جھوٹوں سے مراد دو مدعی نبوت ہیں،
مسیلمہ کذاب یمامہ (نجد) میں اور اسود عنسی یمن میں۔
دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نبوت کا دعوی کر دیا تھا،
اس لیے جس نے کوئی حدیث گھڑی تو گویا اس نے دعویٰ کیا کہ
وہ نبی ہے کیونکہ قرآن کی طرح حدیث بھی ایک طرح سے وحی ہے
کیونکہ یہ بھی اللہ کی طرف سے الہام ہوتی ہے۔
جمع والا معنی کرنے سے مراد ہو گا کہ قیامت تک جتنے نبوت کا
دعویٰ کرنے والے آئیں گے، وہ بھی ان میں سے ایک ہو گا۔
ایک حدیث میں آپ نے قیامت سے پہلے پہلے تیس کذاب و دجال
(جھوٹے نبیوں) کا ذکر فرمایا ہے [مسند احمد: 104/2]
اور جھوٹی روایت گھڑنے والے کو ان کے ساتھ شمار کیا ہے۔

➍ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ایسی روایت بیان کرنا جائز ہے
تاکہ وہ اس سے دھوکا کھا کر اس پر عمل نہ کر بیٹھیں،
کیونکہ اس صورت میں مقصود دھوکا دینا نہیں،
بلکہ دھوکے سے بچانا ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 38   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3715  
´علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کے مناقب`
ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن ابوطالب رضی الله عنہ نے «رحبیہ» (مخصوص بیٹھک) میں بیان کیا، حدیبیہ کے دن مشرکین میں سے کچھ لوگ ہماری طرف نکلے، ان میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کچھ اور سردار بھی تھے یہ سب آ کر کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہمارے بیٹوں، بھائیوں اور غلاموں میں سے کچھ آپ کی طرف نکل کر آ گئے ہیں، انہیں دین کی سمجھ نہیں وہ ہمارے مال اور سامانوں کے درمیان سے بھاگ آئے ہیں، آپ انہیں واپس کر دیجئیے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے گروہ قریش! تم اپنی نفسیانیت سے ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3715]
اردو حاشہ:
وضاحت:
نوٹ:
سند میں سفیان بن وکیع ضعیف ہیں،
لیکن حدیث کے آخری الفاظ
«مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»
دیگر سندوں سے صحیح متواتر ہے،
ملاحظہ ہو: حدیث نمبر 2660 ، 2659 اور 2661۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3715   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث، صحيح مسلم: 2  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
«كذب على النبى صلى الله عليه وسلم»
سے مراد یہ ہے کہ اپنی یا کسی دوسرے کی بات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دی جائے،
اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے حق میں، شریعت کی تائید میں،
ترغیب وترہیب کی خاطر حدیث گھڑنا جائز ہے،
کیونکہ جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی،
اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرار دینا ہی جھوٹ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2