صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
89. بَابُ مَا قِيلَ فِي دِرْعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَمِيصِ فِي الْحَرْبِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لڑائی میں زرہ پہننا۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا خَالِدٌ فَقَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» .
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خالد بن ولید نے تو اپنی زرہیں اللہ کے راستے میں وقف کر رکھی ہیں (پھر اس سے زکاۃ کا مانگنا بیجا ہے)۔
حدیث نمبر: 2915
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَهُوَ، يَقُولُ: سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ {45} بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ {46} سورة القمر آية 45-46"، وَقَالَ وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَوْمَ بَدْرٍ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بدر کے دن) دعا فرما رہے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے، کہ اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دے کر فریاد کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس کیجئے اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حضور میں دعا کی حد کر دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر * بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر» جماعت (مشرکین) جلد ہی شکست کھا کر بھاگ جائے گی اور پیٹھ دکھانا اختیار کرے گی اور قیامت کے دن کا ان سے وعدہ ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی بھیانک اور تلخ ہو گا۔ اور وہیب نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا کہ بدر کے دن کا (یہ واقعہ ہے)۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3081  
´سورۃ الانفال سے بعض آیات کی تفسیر​۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ۳۱۳) تھے۔ پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے: اے میرے رب! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے، جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اسے عطا فرما دے، اے میرے رب! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جا سکے گی۔‏‏‏‏ آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3081]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے فریاد رسی چاہتے تھے تو اللہ نے تمہاری درخواست قبول کر لی،
اور فرمایا:
میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا وہ پیہم یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے،
تو اللہ نے ان کی فرشتوں سے مدد کی(الأنفال: 9) 2؎:
یعنی فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3081   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2915  
2915. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے خیمے میں اللہ کے حضور یہ عرض کررہے تھے اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں (کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓنے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کے رسول ﷺ! بس یہ آپ کے لیے کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے: عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائےگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔ (راوی حدیث) خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2915]
حدیث حاشیہ:
:
یعنی اے اللہ! آج تو اپنا وعدہ اپنے فضل و کرم سے پورا کردے۔
وعدہ یہ تھا کہ یا تو قافلہ آئے گا یا کافروں پر فتح ہوگی۔
آنحضرت ﷺ کو اللہ کے وعدہ پر کامل بھروسہ تھا۔
مگر مسلمانوں کی بے سرو سامانی اور قلت اور کافروں کی کثرت کو دیکھ کر بہ مقتضائے بشریت آپ نے فرمایا لم نعبد بعد الیوم کا مطلب یہ کہ دنیا میں آج تیرے خالص پوجنے والے یہی تین سو تیرہ آدمی ہیں‘ اگر تو ان کو بھی ہلاک کردے گا تو تیری مرضی۔
چونکہ میرے بعد پھر کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تو قیامت تک شرک ہی شرک رہے گا اور تجھے کوئی نہ پوجے گا۔
اللہ نے اپنے پیارے نبی کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور بدر میں کافروں کو وہ شکست دی کہ آئندہ کے لئے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور اہل اسلام کی ترقی کے راستے کھل گئے۔
حدیث ہذا سے میدان جنگ میں زرہ پہننا ثابت ہوا۔
آج کل مشینی دور ہے لہٰذا میدان جنگ کے بھی قدیم اطوار بدل گئے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2915   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2915  
2915. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے خیمے میں اللہ کے حضور یہ عرض کررہے تھے اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں (کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓنے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کے رسول ﷺ! بس یہ آپ کے لیے کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے: عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائےگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔ (راوی حدیث) خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2915]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اس لیے عرض کیا کہ ان جاں نثاروں کی ہلاکت کے بعد قیامت تک اس زمین پر شرک ہی شرک رہے گا۔
معبود حقیقی کو کوئی ماننے والا نہیں ہو گا۔

امام بخاری ؒ اس س حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زرہ تھی جسے آپ نے غزوہ بدر کے موقع پر پہنا لہٰذا میدان جنگ میں زرہ پہننا جائز ہے اور ایسا کرنا تو کل کے منافی نہیں۔

زرہ لوہے کی اس قمیص کو کہتے ہیں جس کے پہننے سے میدان جنگ میں سارا جسم چھپ جاتا ہے پھر جسم پر نیزے یا برچھے یا تیر کا اثر نہیں ہوتا۔
قدیم زمانے میں دوران جنگ میں زرہ پہننے کا رواج تھا آج کل زرہ کا استعمال ختم ہو چکا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2915