صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
97. بَابُ مَنْ صَفَّ أَصْحَابَهُ عِنْدَ الْهَزِيمَةِ، وَنَزَلَ عَنْ دَابَّتِهِ، وَاسْتَنْصَرَ:
باب: ہار جانے کے بعد امام کا سواری سے اترنا اور بچے کھچے لوگوں کی صف باندھ کر اللہ سے مدد مانگنا۔
حدیث نمبر: 2930
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ أَكُنْتُمْ فَرَرْتُمْ يَا أَبَا عُمَارَةَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، قَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا وَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنَّهُ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ وَأَخِفَّاؤُهُمْ حُسَّرًا لَيْسَ بِسِلَاحٍ، فَأَتَوْا قَوْمًا رُمَاةً جَمْعَ هَوَازِنَ وَبَنِي نَصْرٍ مَا يَكَادُ يَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ، فَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا يَكَادُونَ يُخْطِئُونَ، فَأَقْبَلُوا هُنَالِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَابْنُ عَمِّهِ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَقُودُ بِهِ، فَنَزَلَ وَاسْتَنْصَرَ ثُمَّ قَالَ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ثُمَّ صَفَّ أَصْحَابَهُ".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے ایک صاحب نے پوچھا تھا کہ ابوعمارہ! کیا آپ لوگوں نے حنین کی لڑائی میں فرار اختیار کیا تھا؟ براء رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں اللہ کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پشت ہرگز نہیں پھیری تھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں جو نوجوان تھے بے سروسامان جن کے پاس نہ زرہ تھی، نہ خود اور کوئی ہتھیار بھی نہیں لے گئے تھے، انہوں نے ضرور میدان چھوڑ دیا تھا کیونکہ مقابلہ میں ہوازن اور بنو نصر کے بہترین تیرانداز تھے کہ کم ہی ان کا کوئی تیر خطا جاتا۔ چنانچہ انہوں نے خوب تیر برسائے اور شاید ہی کوئی نشانہ ان کا خطا ہوا ہو (اس دوران میں مسلمان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی ابوسفیان بن حارث ابن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا مانگی۔ پھر فرمایا: «أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب» میں نبی ہوں اس میں غلط بیانی کا کوئی شائبہ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی (نئے طریقے پر) صف بندی کی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1688  
´جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1688]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔

2؎:
ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں،
مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے،
نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے،
اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے،
اور اسلام قبول کرلیا،
پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔

3؎:
اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے،
اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں،
اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں،
عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی،
یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی،
چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپﷺ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: (أيكم ابن عبد المطلب؟)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1688   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2930  
2930. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، ان سے کسی نے پوچھا: اے ابو عمارہ! کیا آپ لوگوں نے غزوہ حنین میں فرار اختیار کیاتھا؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ ﷺ نے ہر گز پیٹھ نہیں پھیری، البتہ آپ کے اصحاب میں جو نوجوان بے سروسامان تھے، جن کے پاس نہ زرہ تھی، نہ خود اور نہ کوئی دوسرا ہتھیار، ان کاپالا ایسی قوم سے پڑ گیا جو بہترین تیر انداز تھے، وہ ہوازن اور بنو نضر قبائل کی جماعتیں تھیں کہ ان کا تیر کم ہی خطا جاتا تھا، چنانچہ انھوں نے خوب تیر برسائے۔ وہ نشانے سے خطا نہیں کرتے تھے۔ اس دوران میں مسلمان نبی کریم ﷺ کے پاس جمع ہوگئے، آپ اپنے سفیدخچر پر سوار تھے اور آپ کے چچازاد بھائی حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعامانگی، پھر فرمایا: میں نبی ہوں۔ اس میں غلط بیانی کا کوئی شائبہ نہیں، اور میں جناب عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ پھر آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2930]
حدیث حاشیہ:
(فَأَقْبَلُوا هُنَالِكَ)
کے دو مفہوم ہیں۔
ایک یہ کہ آپ کے پاس آنے والے وہ نوجوان مسلمان تھے جنھوں نے کفار سے پیٹھ پھیر لی تھی۔
جب یہ لوگ رسول اللہ ﷺکے پاس پہنچے تو کچھ تو اپنے اپنے راستے پر چلے گئے اور کچھ وہیں آپ کے پاس رک گئے آپ نے ان کی دوبارہ صف بندی کی اور ہلابول دیا۔
(حملہ کر دیا)
۔
اور دوسرا احتمال یہ ہے۔
مسلمانوں کے شکست کھانے کے بعد کفار آپ کے سامنے آئے ہوں اور ان کی طرف سے آپ پر حملہ کرنے کا بیان ہو۔
دونوں صورتوں میں یہ بات سامنے آئی کہ ہزیمت کے بعد رسول اللہ ﷺنے اپنے ساتھیوں کی دوبارہ صف بندی کی اور اپنی سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے اپنی نصرت و فتح کی دعا مانگی اس دعا کا بیان آئندہ احادیث میں آئے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2930