سنن ترمذي
كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
47. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي لُبْسِ الْحُمْرَةِ لِلرِّجَالِ
باب: مردوں کے لیے سرخ لباس پہننے کی اجازت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2811
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنِ الْأَشْعَثِ وَهُوَ ابْنُ سَوَّارٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْقَمَرِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَإِذَا هُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَشْعَثِ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کو بھی دیکھنے لگا (کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے ۱؎، اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف اشعث کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 2208) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار قاضی اہواز ضعیف راوی ہیں، انہوں نے اس حدیث کو براء بن عازب کی بجائے جابر بن سمرہ کی روایت بنا سنن الدارمی/ ہے، براء بن عازب کی روایت رقم 1724 پر گزر چکی ہے)»

وضاحت: ۱؎: بعض علماء کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سرخ لباس خالص سرخ رنگ کا نہیں تھا بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں، ظاہر ہے ایسے سرخ لباس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: (حديث البراء) صحيح، (حديث جابر بن سمرة) ضعيف (حديث البراء) وتقدم بأتم منه (1724) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا برقم (1408 - 1794) //، (حديث جابر بن سمرة) مختصر الشمائل (8) // ووقع فيه: صحيح، وهو خطأ //
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3599  
´مردوں کے سرخ لباس پہننے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت بال جھاڑے اور سنوارے ہوئے سرخ جوڑے میں ملبوس کسی کو نہیں دیکھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3599]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن قیم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حلھ کا مطلب تہبند اور اوڑھنے والی چادر ہے اور حلھ کا لفظ ان دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔
یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تھا اورا س میں دوسرا رنگ شامل نہیں تھا۔
سرخ حلے سے مراد یمن کی دو چادریں ہوتی ہیں جو سرخ اور سیاہ دھاریوں کی صورت میں بنی ہوتی ہیں جس طرح یمن کی دوسری چادریں (لکیر دار)
ہوتی ہیں۔
یہ لباس اس نام (سرخ حلہ)
سے ان سرخ دھاریوں کی وجہ سے مشہور ہے ورنہ خالص سرخ (لباس)
سے تو سختی سے منع کیا گیا ہے البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب الصلاۃ فی الثوب الأحمر حدیث: 376)
میں ذکر کردہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان کے ذریعے سے (سرخ کپڑا پہننے کے)
جواز کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔
گویا خالص سرخ رنگ کا جوڑا پہننا بھی مردوں کے لئے جائز ہے لیکن اگر کسی علاقے میں یہ رنگ عورتوں کے لئے مخصوص ہو چکا ہو تو پھر اس علاقے میں مردوں کے لئے اس سے اجتناب بہتر ہوگا کیونکہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا بھی ممنوع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3599   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2811  
´مردوں کے لیے سرخ لباس پہننے کی اجازت کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کو بھی دیکھنے لگا (کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے ۱؎، اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2811]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض علماء کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ سرخ لباس خالص سرخ رنگ کا نہیں تھا بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں،
ظاہر ہے ایسے سرخ لباس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔

نوٹ:
(سند میں اشعث بن سوار قاضی اہواز ضعیف راوی ہیں،
انہوں نے اس حدیث کو براء بن عازب کی بجائے جابر بن سمرہ کی روایت بنا دی ہے،
براء بن عازب کی روایت رقم: 1724 پر گزرچکی ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2811   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1724  
´مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کے جواز کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1724]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے،
اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب وزینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے،
خود نبی اکرم ﷺ کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ ﷺ پہنے تھے،
ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا،
بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1724   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4072  
´لال رنگ کا استعمال جائز ہے۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے، میں نے آپ کو ایک سرخ جوڑے میں دیکھا اس سے زیادہ خوبصورت میں نے کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4072]
فوائد ومسائل:
نیچے آنے والی حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کا یہ سرخ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تعلق نہیں تھا، بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں جسے برد کہا جاتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمتہ نے زادالمعاد میں اس کی یہی توجیہ پیش کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4072   
وَرَوَى شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً حَمْرَاءَ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
شعبہ اور ثوری ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں اور ابواسحاق نے براء بن عازب سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر سرخ جوڑا دیکھا، ہم سے بیان کیا اسی طرح محمود بن غیلان نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا وکیع نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا سفیان نے اور انہوں نے روایت کیا ابواسحاق سے۔

تخریج الحدیث: «0»

قال الشيخ الألباني: (حديث البراء) صحيح، (حديث جابر بن سمرة) ضعيف (حديث البراء) وتقدم بأتم منه (1724) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا برقم (1408 - 1794) //، (حديث جابر بن سمرة) مختصر الشمائل (8) // ووقع فيه: صحيح، وهو خطأ //
وَرَوَى شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً حَمْرَاءَ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
شعبہ اور ثوری ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں اور ابواسحاق نے براء بن عازب سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر سرخ جوڑا دیکھا، ہم سے بیان کیا اسی طرح محمود بن غیلان نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا وکیع نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا سفیان نے اور انہوں نے روایت کیا ابواسحاق سے۔

تخریج الحدیث: «0»

قال الشيخ الألباني: (حديث البراء) صحيح، (حديث جابر بن سمرة) ضعيف (حديث البراء) وتقدم بأتم منه (1724) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا برقم (1408 - 1794) //، (حديث جابر بن سمرة) مختصر الشمائل (8) // ووقع فيه: صحيح، وهو خطأ //