صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
101. بَابُ دَعْوَةِ الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ، وَعَلَى مَا يُقَاتَلُونَ عَلَيْهِ:
باب: یہود اور نصاریٰ کو کیوں کر دعوت دی جائے اور کس بات پر ان سے لڑائی کی جائے۔
حدیث نمبر: 2939
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَى كِسْرَى، فَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ يَدْفَعُهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، فَلَمَّا قَرَأَهُ كِسْرَى حَرَّقَهُ، فَحَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خط کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایلچی سے) یہ فرمایا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو بحرین کے گورنر کو دے دیں، بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔ جب کسریٰ نے مکتوب مبارک پڑھا تو اسے اس نے پھاڑ ڈالا۔ مجھے یاد ہے کہ سعید بن مسیب نے بیان کیا تھا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بددعا کی تھی کہ وہ بھی پارہ پارہ ہو جائے (چنانچہ ایسا ہی ہوا)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 64  
´اہل ایران کے لیے بددعا`
«. . . فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ (بھی چاک شدہ خط کی طرح) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 64]

تشریح:
اللہ نے بہت جلد اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر ظاہر کر دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 64   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2939  
2939. حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا (دعوتی) خط شاہ ایران کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ نے قاصد کو حکم دیا کہ وہ اس خط کو بحرین کے گورنر کو پہنچا دے، پھر بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔ جب کسریٰ نے مکتوب پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میرے خیال کے مطابق حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: نبی کریم ﷺ نے ان (ایرانیوں) پر بددعا کی کہ وہ خود بھی پارہ پارہ ہوجائیں۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2939]
حدیث حاشیہ:
تواریخ میں مذکور ہے کہ فرزند کسریٰ جو ایک نوجوان عیاش قسم کا آدمی تھا اور وہ موقع کا انتظار کر رہا تھا کہ اپنے والد کسریٰ کو ختم کرکے جلد سے جلد تخت اور خزانوں کا مالک بن جائے۔
چنانچہ جب کسریٰ نے یہ حرکت کی اس کے بعد جلد ہی ایک رات کو اس کے لڑکے نے کسریٰ کے پیٹ پر چڑھ کر اس کے پیٹ کو چھرا گھونپ دیا اور اسے ختم کردیا۔
بعد میں وہ تخت و تاج کا مالک بنا تو اس نے خزانوں کا جائزہ لیتے ہوئے خزانے میں ایک دوا کی شیشی پائی جس پر قوت باہ کی دوا لکھا ہوا تھا۔
اس نے سوچا کہ والد صاحب اسی دوا کو کھا کھا کر آخر تک داد عیش دیتے رہے مجھ کو بھی دوا کھالینی چاہئے۔
درحقیقت اس شیشی میں سم الفار تھا اس نے اس کو کھایا اور فوراً ہی وہ بھی ختم ہوگیا۔
اس طرح اس کی سلطنت پارہ پارہ ہوگئی اور عہد فاروقی میں سارا ملک اسلامی قلم رو میں شامل ہوگیا اور اللہ کے سچے رسولﷺ کی دعا نے پورا پورا اثر دکھلایاﷺ۔
کرمانی وغیرہ میں ہے کہ اس کے لڑکے کا نام خیرویہ تھا جس نے اپنے باپ پرویز نامی کا پیٹ چاک کیا اور چھ ماہ بعد خود بھی وہ مذکورہ زہر کھا کر ہلاک ہوگیا۔
عہد فاروقی میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکے ہاتھوں یہ ملک فتح ہوا۔
یہاں روایت میں یہی خسرو پرویز مراد ہے جو لقب کسریٰ سے یاد کیا گیا۔
(حاشیہ بخاری شریف‘ جلد:
اول، ص: 15)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2939   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2936  
´مسلمان اہل کتاب کو دین کی بات بتلائے یا ان کو قرآن سکھائے؟`
«. . . أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ، وَقَالَ:" فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (روم کے بادشاہ) قیصر کو (خط) لکھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر تم نے (اسلام کی دعوت سے) منہ موڑا تو (اپنے گناہ کے ساتھ) ان کاشتکاروں کا بھی گناہ تم پر پڑے گا (جن پر تم حکمرانی کر رہے ہو)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2936]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2936 کا باب: «بَابُ هَلْ يُرْشِدُ الْمُسْلِمُ أَهْلَ الْكِتَابِ أَوْ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اہل کتاب کو دین سکھانے اور قرآن کی تعلیم دینے پر جواز پیش فرمایا ہے، مگر دلیل کے طور پر ترجمۃ الباب سے حدیث کا تعلق نظر نہیں آتا، کیونکہ حدیث میں کسی آیت کے سکھانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا رحجان یہ نظر آتا ہے کہ اہل کتاب کو دین اور قرآن سکھایا جا سکتا ہے مگر حدیث میں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں ہے۔
در اصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس جگہ پر اس حدیث کو مختصرا ذکر فرمایا ہے اور مکمل حدیث «باب دعا النبى صلى الله عليه وسلم إلى الاسلام والنبوة» میں ذکر فرمائی ہے جس میں واضح طور پر وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قیصر کی طرف خط بھیجا تو اس میں قرآن مجید کی آیت درج کروائی تھی:
« ﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾ » [آل عمران: 64]
لہذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے، مذکورہ بالا ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں، پہلے جزء کی مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور فرمایا: «فان توليت» کیونکہ یہ جملہ اور اس کا انداز بیان بتا دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں رشد کی طرف دعوت دے رہے ہیں، دوسرا جزء یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فان عليك اثم الأريسينين.» یہ ذکر اور وعید ہے۔ ان دونوں کی مناسبت بھی ترجمۃ الباب سے واضح ہے۔
لہذا ترجمۃ الباب میں اس طرف اشارہ ہوا کہ مسلمانوں کو خصوصا مسلمان حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ کافروں اور اہل کتاب پر دین اسلام کی دعوت پیش کریں۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل کتاب کی رہنمائی اور انہیں دین اسلام کی دعوت دینا مسلمان حاکموں پر واجب ہے، اور یہ ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ [شرح ابن بطال، ج 5، ص: 116]
فائدہ نمبر 1:
کافر جس کو قرآن کی تعلیم دینے کا حکم ہے۔
اس مسئلے میں ائمہ کا اختلاف رہا ہے کہ آیا کافروں کو قرآن کی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ نہیں، بعض اہل علم کا رحجان اس طرف ہے کہ کافروں کو دعوت نہیں دی جا سکتی، اور بعض کا رحجان اس طرف ہے کہ اگر ان کا اسلام قبول کرنا ممکن ہو اور امید ہو تو جائز ہے۔
① امام مالک رحمہ اللہ کا رحجان اور ان کے دلائل:
امام مالک رحمہ اللہ مطلقا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ (دیکھئے: [اكمال اكمال المعلم على شرح صحيح مسلم 5/216])
امام مالک رحمہ اللہ قرآن مجید کی اس آیت سے اپنے موقف کو ثابت کرتے ہیں: « ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾ » [التوبة: 28] یعنی مشرکین ناپاک ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ کا استدلال اس حدیث سے بھی ہے، چنانچہ حدیث میں موجود ہے:
«نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يسافر بالقرآن إلى أرض العدو.» [صحيح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 4840]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ملک کی طرف قرآن مجید ساتھ لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ بعض مالکیہ بطور وعظ و نصیحت کے ایک یا دو آیات کے جواز کے قائل بھی ہیں۔ [اكمال الكمال المعلم: 5/216]
احناف کے دلائل:
احناف کا رحجان اس طرف ہے کہ کافر چاہے حربی ہو یا ذمی اسے قرآن وغیرہ سکھانے میں کوئی حرج نہیں، احناف نے اپنے موقف کے لئے یہ آیت پیش فرمائی ہیں:
« ﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ﴾ » [التوبة: 6]
اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیں تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے۔
احناف کی دلیل حدیث سے:
«مر النبى صلى الله عليه وسلم على عبدالله ابن أبى قبل أن يسلم وفي المجلس اخلاط من المسلمين و المشركين واليهود فقراء عليهم القرآن.» [عمدة القاري، ج 14، ص: 306]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس سے گزرے ان کے اسلام لانے سے قبل اور اس مجلس میں مسلمان، مشرکین اور یہودی موجود تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو قرآن سنایا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا رحجان:
امام شافعی رحمہ اللہ سے دونوں طرح کے اقوال ثابت ہیں:
[اكمال اكمال المعلم و شرح على صحيح مسلم، 57، ص: 117 - فتح الباري، ج 6، ص: 133]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا رحجان:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسلام قبول کرنے کی شرط پر جائز قرار دیتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک اگر اسلام قبول کرنے کی امید نہ ہو تو کفار کو قرآن کی تعلیم دینا جائز نہیں۔ [المغني لابن قدامة، ج 9، ص: 289]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رحجان:
«والذي يظهر أن الراجح التفصيل بين من يرجى منه الرغبة فى الدين والدخول فيه . . .» [فتح الباري، ج 6، ص: 133]
میرے نزدیک جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ امید ہو کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے گا اور اس کی رغبت ہو اسلام کی طرف، یا کم سے کم اس سے نقصان کا خطرہ نہ ہو تو اسے قرآن سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔
مذکورہ بالا ائمہ کے دلائل کو دیکھا جائے اور ان پر غور کیا جائے تو یہی (Conditions) سامنے آتی ہیں جس کا ذکر حافظ صاحب نے فرمایا۔
ہرقل اور قیصر کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط بھیجے اس میں یہ امید تھی کہ کوئی نہ کوئی ایمان لے آئے گا اور کئی مواقع پر اس قسم کی نصرت الہی ظاہر ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے شہر یا ملک میں قرآن لے جانے سے منع فرمایا اسی وجہ سے کہ وہاں بےادبی اور گستاخی جیسے رویہ کا خطرہ موجود ہو، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان اور رحجان اس طرف ہے کہ کافروں کی راہنمائی کی جا سکتی ہے اور انہیں قرآن کی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔
فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں: «أن رسول الله كتب . . .» کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا۔ یاد رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أن النبى صلى الله عليه وسلم كتب إلى قيصر، و حديثه كتب إلى النجاشي، و حديثه كتب إلى كسرى، و حديث عبدالله بن عكيم كتب إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وغير هذه الأحاديث كلها محمولة على أمر الكاتب.» [تلخيص الحبير، ج 3، ص: 128]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا قیصر کی طرف، کسری کی طرف اور عبداللہ بن عکیم نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ہماری طرف، اس کے علاوہ اور بھی جتنی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجود ہے وہ سب احادیث اس امر پر محمول ہیں کہ لکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خود نہیں لکھا بلکہ) کاتبوں سے لکھوایا۔ [تلخيص الحبير لابن حجر عسقلاني، ج 3، ص: 128 - سير اعلام النبلاء للذهبي، ج 9، ص: 437] یا پھر راقم کی کتاب [تفهيم حديث، ج 1، ص: 73-80]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 415   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2939  
2939. حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا (دعوتی) خط شاہ ایران کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ نے قاصد کو حکم دیا کہ وہ اس خط کو بحرین کے گورنر کو پہنچا دے، پھر بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔ جب کسریٰ نے مکتوب پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میرے خیال کے مطابق حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: نبی کریم ﷺ نے ان (ایرانیوں) پر بددعا کی کہ وہ خود بھی پارہ پارہ ہوجائیں۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2939]
حدیث حاشیہ:

بحرین کے گورنر کے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط لے جانے والے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی ؓ تھے۔
کسریٰ کو خط پہنچانے کا طریقہ یہی تھا کہ پہلے اس کے گورنر دیا جائے،پھر وہ خود شاہ ایران کو پہنچائے جب کسریٰ نے رسول اللہ ﷺ کا خط پھاڑ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق بددعا فرمائی کہ اس نے میرا خط نہیں پھاڑا بلکہ خود کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔
چنانچہ وہ خود اور اس کی حکومت پاش پاش ہو گئی۔
آخر کار اہل فارس نے ایک عورت کو اپنا سر براہ بنایا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو گی جس نے حکومت کے معاملات عورت کے سپرد کر دیے۔
چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ایران کا آتش کدہ بجھا کر وہاں اسلامی پرچم لہرادیا گیا۔

رسول اللہ ﷺنے پہلے اہل فارس کو دعوتی خط لکھا پھر ان سے جہاد کیا۔
امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ پہلے دعوت اسلام دی جائے۔
اگر غیر مسلم اسے قبول نہ کریں تو پھر ان سے جہاد و قتال کیا جائے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اب دعوت اسلام پھیل چکی ہے لہٰذا اب قتال ہی ہو گا۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں۔
جس کی رہائش دارالاسلام سے دور ہے اسے تو دعوت دی جائے لیکن قریب رہنے والے کو دعوت کی ضرورت نہیں۔
بہر حال جن لوگوں کو دعوت نہیں پہنچی ان کے ساتھ اس دعوت سے پہلے جنگ وقتال جائز نہیں جب تک انھیں دعوت دے کر اتمام حجت نہ کردی جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2939