سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
2. باب وَمِنْ سُورَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
باب: سورۃ فاتحہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 2954
أَخْبَرَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: " أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: هَذَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، وَجِئْتُ بِغَيْرِ أَمَانٍ وَلَا كِتَابٍ، فَلَمَّا دُفِعْتُ إِلَيْهِ أَخَذَ بِيَدِي وَقَدْ كَانَ قَالَ قَبْلَ ذَلِكَ: إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ يَدَهُ فِي يَدِي، قَالَ: فَقَامَ بِي فَلَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ وَصَبِيٌّ مَعَهَا، فَقَالَا: إِنَّ لَنَا إِلَيْكَ حَاجَةً، فَقَامَ مَعَهُمَا حَتَّى قَضَى حَاجَتَهُمَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي حَتَّى أَتَى بِي دَارَهُ، فَأَلْقَتْ لَهُ الْوَلِيدَةُ وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَيْهَا وَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " مَا يُفِرُّكَ أَنْ تَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَهَلْ تَعْلَمُ مِنْ إِلَهٍ سِوَى اللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: ثُمَّ تَكَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا تَفِرُّ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُ أَكْبَرُ وَتَعْلَمُ أَنَّ شَيْئًا أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَإِنَّ الْيَهُودَ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ وَإِنَّ النَّصَارَى ضُلَّالٌ، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي جِئْتُ مُسْلِمًا، قَالَ: فَرَأَيْتُ وَجْهَهُ تَبَسَّطَ فَرَحًا، قَالَ: ثُمَّ أَمَرَ بِي فَأُنْزِلْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ جَعَلْتُ أَغْشَاهُ آتِيهِ طَرَفَيِ النَّهَارِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا عِنْدَهُ عَشِيَّةً إِذْ جَاءَهُ قَوْمٌ فِي ثِيَابٍ مِنَ الصُّوفِ مِنْ هَذِهِ النِّمَارِ، قَالَ: فَصَلَّى، وَقَامَ فَحَثَّ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَالَ: وَلَوْ صَاعٌ، وَلَوْ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَلَوْ بِقَبْضَةٍ، وَلَوْ بِبَعْضِ قَبْضَةٍ يَقِي أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ حَرَّ جَهَنَّمَ أَوِ النَّارِ، وَلَوْ بِتَمْرَةٍ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَاقِي اللَّهَ، وَقَائِلٌ لَهُ مَا أَقُولُ لَكُمْ: أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا؟ فَيَقُولُ: بَلَى، فَيَقُولُ: أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ مَالًا وَوَلَدًا؟ فَيَقُولُ: بَلَى، فَيَقُولُ: أَيْنَ مَا قَدَّمْتَ لِنَفْسِكَ؟ فَيَنْظُرُ قُدَّامَهُ وَبَعْدَهُ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ لَا يَجِدُ شَيْئًا يَقِي بِهِ وَجْهَهُ حَرَّ جَهَنَّمَ، لِيَقِ أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ، فَإِنِّي لَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الْفَاقَةَ، فَإِنَّ اللَّهَ نَاصِرُكُمْ وَمُعْطِيكُمْ حَتَّى تَسِيرَ الظَّعِينَةُ فِيمَا بَيْنَ يَثْرِبَ وَالْحِيرَةِ أَوْ أَكْثَرَ مَا تَخَافُ عَلَى مَطِيَّتِهَا السَّرَقَ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ فِي نَفْسِي فَأَيْنَ لُصُوصُ طَيِّئٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، لوگوں نے کہا: یہ عدی بن حاتم ہیں، میں آپ کے پاس بغیر کسی امان اور بغیر کسی تحریر کے آیا تھا، جب مجھے آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ آپ اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا ۱؎۔ عدی کہتے ہیں: آپ مجھے لے کر کھڑے ہوئے، اسی اثناء میں ایک عورت ایک بچے کے ساتھ آپ سے ملنے آ گئی، ان دونوں نے عرض کیا: ہمیں آپ سے ایک ضرورت ہے۔ آپ ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی ضرورت پوری فرما دی۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے لیے اپنے گھر آ گئے۔ ایک بچی نے آپ کے لیے ایک گدا بچھا دیا، جس پر آپ بیٹھ گئے اور میں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: (بتاؤ) تمہیں «لا إلہ إلا اللہ» کہنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود سمجھتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے کچھ دیر باتیں کیں، پھر فرمایا: اللہ اکبر کہنے سے بھاگ رہے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: یہود پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں تو مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، پھر آپ نے میرے لیے حکم فرمایا: تو میں ایک انصاری صحابی کے یہاں (بطور مہمان) ٹھہرا دیا گیا، پھر میں دن کے دونوں کناروں پر یعنی صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہونے لگا۔ ایک شام میں آپ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگ چیتے کی سی دھاری دار گرم کپڑے پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے (ان کے آنے کے بعد) آپ نے نماز پڑھی، پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی اور لوگوں کو ان پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا۔ آپ نے فرمایا: (صدقہ) دو اگرچہ ایک صاع ہو، اگرچہ آدھا صاع ہو، اگرچہ ایک مٹھی ہو، اگرچہ ایک مٹھی سے بھی کم ہو جس کے ذریعہ سے تم میں کا کوئی بھی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی یا جہنم سے بچا سکتا ہے۔ (تم صدقہ دو) چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ چاہے آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ کیونکہ تم میں سے ہر کوئی اللہ کے پاس پہنچنے والا ہے، اللہ اس سے وہی بات کہنے والا ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں، (وہ پوچھے گا) کیا ہم نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں نہیں بنائیں؟ وہ کہے گا: ہاں، کیوں نہیں! اللہ پھر کہے گا: کیا میں نے تمہیں مال اور اولاد نہ دی؟، وہ کہے گا: کیوں نہیں تو نے ہمیں مال و اولاد سے نوازا۔ وہ پھر کہے گا وہ سب کچھ کہاں ہے جو تم نے اپنی ذات کی حفاظت کے لیے آگے بھیجا ہے؟ (یہ سن کر) وہ اپنے آگے، اپنے پیچھے، اپنے دائیں بائیں (چاروں طرف) دیکھے گا، لیکن ایسی کوئی چیز نہ پائے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچا سکے۔ اس لیے تم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچانے کی کوشش و تدبیر کرنی چاہیئے ایک کھجور ہی صدقہ کر کے کیوں نہ کرے۔ اور اگر یہ بھی نہ میسر ہو تو اچھی و بھلی بات کہہ کر ہی اپنے کو جہنم کی گرمی سے بچائے۔ مجھے اس کا خوف نہیں ہے کہ تم فقر و فاقہ کا شکار ہو جاؤ گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے، اور تمہیں دینے والا ہے (اتنا دینے والا ہے) کہ ایک ہودج سوار عورت (تنہا) یثرب (مدینہ) سے حیرہ تک یا اس سے بھی لمبا سفر کرے گی اور اسے اپنی سواری کے چوری ہو جانے تک کا ڈر نہ ہو گا ۲؎ عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں: (اس وقت) میں سوچنے لگا کہ قبیلہ بنی طی کے چور کہاں چلے جائیں گے ۳؎؟
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف سماک بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں،
۳- شعبہ نے سماک بن حرب سے، سماک نے، عباد بن حبیش سے، اور عباد بن حبیش نے عدی بن حاتم رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری حدیث روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن) (الصحیحة 3263)»

وضاحت: ۱؎: وہ مجھ پر ایمان لے آئیں گے اور میری اطاعت قبول کر لیں گے۔
۲؎: یعنی اس وقت اتنی مالداری آ جائے گی اور اسلامی شریعت کے نفاذ کی برکت سے چاروں طرف امن و امان ہو گا کہ کسی کو چوری کرنے کی نہ ضرورت ہو گی اور نہ ہی ہمت۔
۳؎: عدی بن حاتم رضی الله عنہ قبیلہ بنی طے کے چوروں کا خیال انہیں اس لیے آیا کہ وہ خود بھی اسی قبیلہ کے تھے، اور اسی تعلق کی بنا پر انہیں اپنے قبیلہ کے چوروں کا خیال آیا، اس قبیلہ کے لوگ عراق اور حجاز کے درمیان آباد تھے، ان کے قریب سے جو بھی گزرتا تھا وہ ان پر حملہ کر کے اس کا سارا سامان لوٹ لیا کرتے تھے، اسی لیے عدی رضی الله عنہ کو تعجب ہوا کہ میرے قبیلے والوں کی موجودگی میں ایک عورت تن تنہا امن و امان کے ساتھ کیسے سفر کرے گی؟

قال الشيخ الألباني: (قول عدي بن حاتم: أتيت ... الحديث) حسن، (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) صحيح (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) تخريج الطحاوية (811)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2954  
´سورۃ فاتحہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، لوگوں نے کہا: یہ عدی بن حاتم ہیں، میں آپ کے پاس بغیر کسی امان اور بغیر کسی تحریر کے آیا تھا، جب مجھے آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ آپ اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا ۱؎۔ عدی کہتے ہیں: آپ مجھے لے کر کھڑے ہوئے، اسی اثناء میں ایک عورت ایک بچے کے ساتھ آپ سے ملنے آ گئی، ان دونوں نے عرض کیا: ہمیں آپ سے ایک ضرورت ہے۔ آپ ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی ضرورت ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2954]
اردو حاشہ:
وضاحت:
  4؎:
اس حدیث کی باب سے مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2954   
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْيَهُودُ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ، وَالنَّصَارَى ضُلَّالٌ "، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودی وہ ہیں جو اللہ کے غضب کا شکار ہوئے وہ «مغضوب عليهم» ہیں اور نصاریٰ گمراہ لوگ ہیں ۱؎، پھر (انہوں نے) پوری حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث کی باب سے مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: (قول عدي بن حاتم: أتيت ... الحديث) حسن، (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) صحيح (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) تخريج الطحاوية (811)