صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
102. بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّةِ، وَأَنْ لاَ يَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا (غیر مسلموں کو) اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس بات کی دعوت کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر باہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں۔
حدیث نمبر: 2946
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَمَنْ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ" رَوَاهُ عُمَرُ وَابْنُ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس جس نے اقرار کر لیا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں تو اس کی جان اور مال ہم سے محفوظ ہے سوا اس حق کے جس کی بناء پر قانوناً اس کی جان و مال زد میں آئے اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ اس کی روایت عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث71  
´ایمان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 71]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ کی راہ میں جنگ کرنا مسلمانوں کا اجتماعی فریضہ ہے جس کا مقصد انسانوں کو غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر صرف اللہ کی عبادت پر قائم کرنا ہے۔

(2)
کسی شخص کے اسلام میں واقعی داخل ہو جانے کا ثبوت تین چیزیں ہیں:

        توحید و رسالت کا اقرار کرنا،
        نماز باقاعدی سے ادا کرنا
      اور اسلام کے مالی حق یعنی زکاۃ کی ادائیگی کرنا۔

(3)
مذکورہ بالا آیات اور حدیث میں اسلام کے صرف تین ارکان کا ذکر کیا گیا ہے۔ (اقرار شہادتین، نماز اور زکاۃ)
اس کی وجہ یہ ہے کہ شہادتین کے بغیر تو اسلام میں داخل ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
نماز ایسی اجتماعی عبادت ہے جو ہر مسلمان پر ہر حال میں ادا کرنا فرض ہے، اس لیے اسے اسلام اور کفر کے درمیان امتیازی علامت قرار دیا گیا ہے اور زکاۃ اگرچہ صرف مال داروں پر فرض ہے لیکن اسلامی حکومت دولت مندوں سے اس کی وصولی اور ناداروں میں اس کی تقسیم کا جس طرح اہتمام کرتی ہے، اس بنا پر یہ بھی مسلم اور غیر مسلم میں واضح امتیاز کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ زکاۃ صرف مسلمانوں سے لی جاتی ہے اور مسلمانوں ہی میں تقسیم کی جاتی ہے۔

(4)
اس حدیث میں دو ارکان (روزہ اور حج)
کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ روزہ ایک پوشیدہ عبادت ہے اگر ایک شخص بغیر روزہ رکھے اپنے آپ کو روزے دار باور کرانا چاہے تو اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے۔
اور حج اول تو سب مسلمانوں پر فرض ہی نہیں، دوسرے صاحب استطاعت افراد پر بھی زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے۔
علاوہ ازیں جس قوم کے خلاف جنگ کی جا رہی ہو وہ اگر روزہ رکھنے اور حج کرنے کا اقرار بھی کریں تو اس کے عملی اظہار کے لیے انہیں خاص مہینوں کا انتظار کرنا پڑے گا، لہذا جنگ کرنے یا نہ کرنے کا تعلق ایسے کاموں سے قائم کرنا حکمت کے منافی ہے۔
واللہ أعلم.
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 71   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2606  
´جب تک لوگ لا إلہ الا اللہ کہنے نہ لگ جائیں اس وقت تک مجھے ان سے جہاد کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کر لیں، پھر جب وہ اس کا اقرار کر لیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، مگر کسی حق کے بدلے ۱؎، اور ان کا (مکمل) حساب تو اللہ تعالیٰ پر ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2606]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان کی جان اور ان کا مال صرف اسی وقت لیا جائے گا جب وہ قول و عمل سے اپنے آپ کو اس کا مستحق اور سزاوار بنا دیں،
مثلاً کسی نے کسی کو قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے ورثاء اسے قتل کریں گے یا اس سے دیت لیں گے۔

2؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام ایک آفاقی اورعالمگیر مذہب ہے،
اس کا مقصد دنیا سے تاریکی،
گمرا ہی اورظلم وبربریت کا خاتمہ ہے،
ساتھ ہی لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانا اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنا ہے،
دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ جو اسلام کو اپنے گلے سے لگالے اس کی جان مال محفوظ ہے،
البتہ جرائم کے ارتکاب پراس پر اسلامی احکام لاگو ہوں گے،
وہ اپنے مال سے زکاۃ ادا کرے گا،
کسی مسلمان کو ناجائز قتل کردینے کی صورت میں اگر ورثاء اسے معاف نہ کریں اور نہ ہی دیت لینے پر راضی ہوں تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا،
یہ بھی معلوم ہواکہ اس کے ظاہری حالات کے مطابق اسلامی احکام کا اجراء ہوگا،
اس کا باطنی معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2606   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2640  
´کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کی گواہی نہ دینے لگ جائیں، پھر جب وہ اس کلمہ کو کہہ دیں تو ان کے خون اور مال مجھ سے محفوظ ہو گئے، سوائے اس کے حق کے (یعنی اگر وہ کسی کا مال لیں یا خون کریں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا اور ان کا خون کیا جائے گا) اور ان کا حساب اللہ پر ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2640]
فوائد ومسائل:

اسلام بنی نوع انسان کے لئے امن سلامتی کا دین ہے۔
اس کی دعوت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کے اس دنیا میں کائنات کے خالق ومالک کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔
اور نہ کرنے دی جائے۔
اسی اصل بنیاد پرمنکرین سے حسب احوال وظروف قتال کا حکم ہے۔
جس کی معلوم ومعروف شرطیں اور آداب ہیں جواس کتاب الجہاد اور کتب فقہ اسلامی میں محفوظ ہیں۔


اگر کوئی قوم اسلام قبول کرنے پر راضی نہ ہو تو اس کو اہل اسلام کی اطاعت قبول کرنی ہوگی۔
اور جزیہ دینا ہوگا۔


اسلام میں اقرار توحید اور اقرار رسالت محمد رسول اللہ ﷺ کو مستلزم ہے۔
اس کے بغیر توحید کا اقرار قابل قبول نہیں، جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2640   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2946  
2946. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لاإله إلااللہ کہیں۔ جس نے لاإله إلااللہ کہہ دیا اس کی جان اور مال ہم سے محفوظ ہے مگر حق اسلام کی وجہ سے (پھر بھی قتال کیا جا سکتا ہے۔) البتہ اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ اس روایت کو حضرت عمر ؓاور ابن عمر ؓنے بھی نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2946]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول کریمﷺ نے اپنی حیات طیبہ کا مقصد عظیم بیان فرمایا کہ ملک عرب میں مجھ کو اپنی حیات میں اصول اسلام یعنی لَآ اِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ وَاَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کا نفاذ کردینا ہے جو لوگ خوشی سے اس دعوت کو قبول کرلیں گے وہ ہماری اسلامی برادری کے ایک ممبر بن کر ان سارے حقوق کے مستحق ہو جائیں گے جو اسلام نے مسلمانوں کے لئے مقرر کئے ہیں اور جو لوگ اس دعوت کے مدمقابل بن کر لڑائی ہی چاہیں گے ان سے میں برابر لڑتا بھی رہوں گا یہاں تک کہ اللہ پاک حق و باطل کا فیصلہ کرے۔
ویسے جو لوگ نہ مسلمان ہوں اور نہ لڑائی جھگڑا کریں ان کے لئے اسلام کا اصول لا إکراہَ في الدینِ کا ہے یعنی دین اسلام کی اشاعت میں کسی پر زبردستی جائز نہیں ہے۔
یہ سب کی مرضی پر ہے‘ آزادی کے ساتھ جو چاہے قبول کرے جو نہ چاہے وہ قبول نہ کرے‘ اسلام نے مذہب کے بارے میں کسی بھی زبردستی کو روا نہیں رکھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2946   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2946  
2946. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لاإله إلااللہ کہیں۔ جس نے لاإله إلااللہ کہہ دیا اس کی جان اور مال ہم سے محفوظ ہے مگر حق اسلام کی وجہ سے (پھر بھی قتال کیا جا سکتا ہے۔) البتہ اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ اس روایت کو حضرت عمر ؓاور ابن عمر ؓنے بھی نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2946]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں جنگ کی غایت لاإله إلااللہ کہنے کو قراردیا گیا ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق قتال کی غایت لَآ اِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ وَاَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ بیان کی گئی۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 29(22)
اس کی توجیہ یہ ہے کہ پہلی روایت ان بت پرستوں کے متعلق ہے جو توحید کا اقرار ہی نہیں کرتے اور دوسری روایت ان لوگوں کے لیے ہے جو توحید کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے منکر ہیں۔
ان کے متعلق فرمایا:
مجھے ان سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ شہادتیں کا اقرارکریں۔
(فتح الباري: 137/6)
یعنی جس چیز کے منکر ہیں اس کا اقرار کرانے تک قتال جاری رہے گا لیکن حق اسلام کے لیے انھیں قتل کیا جاسکتا ہے۔

حق اسلام تین چیزیں ہیں:
۔
کسی انسان کو بلاوجہ قتل کرنا۔
۔
شادی شدہ کا زنا کرنا۔
۔
دین اسلام سے مرتد ہوجانا۔
۔
انھیں اقرار شہادتین کے باوجود بھی قتل کیا جائے گا اور ان کی جانوں کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔
(عمدة القاري: 266/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2946