سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
3. باب وَمِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ
باب: سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 2983
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الْعَصْرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صلاة الوسطى» (بیچ کی نماز) نماز عصر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 182 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (634)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 182  
´صلاۃ وسطیٰ ہی صلاۃ عصر ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ صلاۃ ظہر ہے۔`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «صلاة وسطیٰ» عصر کی صلاۃ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 182]
اردو حاشہ:
1؎:
صلاۃ, وسطیٰ سے کون سی نماز مراد ہے اس بارے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں صحیح قول یہی ہے کہ اس سے مراد صلاۃِ عصر ہے یہی اکثرصحابہ اور تابعین کا مذہب ہے،
امام ابو حنیفہ،
امام احمد بھی اسی طرف گئے ہیں۔

2؎:
امام مالک اور امام شافعی کا مشہور مذہب یہی ہے۔

نوٹ:
(سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے،
حسن بصری کے سمرہ رضی اللہ عنہ سے سماع میں اختلاف ہے،
نیز قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 182