سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
4. باب وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ
باب: سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3010
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَال: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: " يَا جَابِرُ، مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتُشْهِدَ أَبِي، قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا عَبْدِي، تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ، قَالَ: يَا رَبِّ، تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ، قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا سورة آل عمران آية 169 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَرَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، هَكَذَا عَنْ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرٍ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: جابر! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد شہید کر دیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن) اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ان سے (بغیر پردہ کے) آمنے سامنے بات کی، کہا: اے میرے بندے! مجھ سے کسی چیز کے حاصل کرنے کی تمنا و آرزو کر، میں تجھے دوں گا، انہوں نے کہا: رب! مجھے دوبارہ زندہ فرما، تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ شہید کیا جاؤں، رب عزوجل نے فرمایا: میری طرف سے یہ فیصلہ پہلے ہو چکا ہے «أنهم إليها لا يرجعون» کہ لوگ دنیا میں دوبارہ نہ بھیجے جائیں گے، راوی کہتے ہیں: آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا» ۱؎ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل نے اس حدیث کا کچھ حصہ جابر سے روایت کیا ہے،
۳- اور اس حدیث کو ہم صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں،
۴- اسے علی بن عبداللہ بن مدینی اور کئی بڑے محدثین نے موسیٰ بن ابراہیم کے واسطہ سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (190)، والجھاد 16 (2800) (تحفة الأشراف: 2287) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس، روزی پاتے ہیں۔ (آل عمران: ۱۶۹)

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (190 - 2800)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث190  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمرو بن حرام غزوہ احد کے دن قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: جابر! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے کیا کہا ہے؟، (اور یحییٰ بن حبیب راوی نے اپنی حدیث میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر! میں تمہیں کیوں شکستہ دل دیکھتا ہوں؟)، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے، اور اہل و عیال اور قرض چھوڑ گئے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 190]
اردو حاشہ:
(1)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔
اس طرح ہر قائد اور سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کی خوشی غمی کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا سلوک کرنا چاہیے۔

(2)
فوت ہونے والے کے پسماندگان کو ایسے انداز سے تسلی تشفی دینی چاہیے جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔
ایسا انداز اختیار کرنے اور ایسی بات کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے اس کے غم میں اضافہ ہو اور اسے تکلیف ہو۔

(3)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔

(4)
فوت ہونے کے بعد انسان عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے، اس لیے وہاں اسے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے اور اس کے دیدار کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔

(5)
اس حدیث سے شہداء کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔

(6)
حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کا مقام عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے خود ان کی خواہش دریافت کی۔

(7)
شہادت کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ شہید دوبارہ اس کے حصول کے لیے دنیا میں آنے کی خواہش رکھتا ہے۔
شہید کے علاوہ کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش نہیں رکھتا۔

(8)
فوت ہونےوالوں کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور اس سے عقیدہ تناسخ ارواح کا بھی رد ہوتا ہے۔

(9)
شہداء کی زندگی بھی دوسرے لوگوں کی طرح برزخی زندگی ہے، دنیوی نہیں۔
اس زندگی میں وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں جنت میں کھاتی پیتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں۔ (صحيح مسلم، الامارة، باب بيان ان ارواح الشهداء في الجنة، حديث: 1887)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 190   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3010  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: جابر! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد شہید کر دیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن) اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3010]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو،
بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس،
روزی پاتے ہیں (آل عمران: 169)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3010