سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
4. باب وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ
باب: سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3012
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَامِعٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي رَاشِدٍ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ رَجُلٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاةَ مَالِهِ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي عُنُقِهِ شُجَاعًا، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا مِصْدَاقَهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ سورة آل عمران آية 180 الْآيَةَ، وَقَالَ مَرَّةً: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِصْدَاقَهُ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 180، وَمَنِ اقْتَطَعَ مَالَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ بِيَمِينٍ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِصْدَاقَهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ سورة آل عمران آية 77 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ شُجَاعهًا أَقْرَعَ يَعْنِي حَيَّةً.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی گردن میں ایک سانپ ڈال دے گا، پھر آپ نے اس کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیت «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله» ۱؎ پڑھی راوی نے ایک مرتبہ یہ کہا کہ آپ نے اس کی مناسبت سے یہ آیت «سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة» ۲؎ تلاوت فرمائی، اور فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا مال جھوٹی قسم کھا کر لے لے وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ اس سے برہم (اور سخت غصے میں) ہو گا، پھر آپ نے اس کی مصداق آیت: «إن الذين يشترون بعهد الله» پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 2 (2443)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 2 (1784) (تحفة الأشراف: 9237، 9284)، و مسند احمد (1/377)، وللشطر الثاني انظر حدیث رقم 1269) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے (آل عمران: ۱۸۰)۔
۲؎: عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے (آل عمران: ۱۸۰)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مشكلة الفقر (60) ، التعليق الرغيب (1 / 68)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1784  
´زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا اس کا مال قیامت کے دن ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اس کے گلے کا طوق بن جائے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیت پڑھی: «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله» یعنی اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے (کچھ) مال دیا ہے، اور وہ اس میں بخیلی کرتے ہیں، (فرض زکاۃ ادا نہیں کرتے) تو اس بخیلی کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ بری ہے، ان کے لیے جس (مال) میں انہوں نے بخیلی کی ہے، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1784]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
مال جب نصاب کو پہنچ جائے تو اس کی زکاۃ فرض ہے۔
مجرموں کو قیامت کے دن جہنم میں داخل کیے جانے سے پہلے بھی سزا ملے گی۔
گنجے سانپ سے مراد انتہائی زہریلا سانپ ہے جس کا سر سفید ہو۔
اگر کسی خلاف شریعت کام میں دنیا کا کچھ فائدہ نظر آئے تو اس کے اخروی نقصان کی طرف توجہ کرنی چاہیے تاکہ دنیا کا فائدہ حقیر محسوس ہو اور شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔
ارشادات نبوی قرآن مجید ہی کی تشریح ہیں، اس لیے بعض اوقات رسول اللہ ﷺ اپنے ارشاد مبارک کے ساتھ قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبوی بھی پڑھ کر ان کا ترجمہ سنانا چاہیے۔
اس میں جو برکت ہے وہ بزرگوں کی حکایات پر اکتفا کرنے میں نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1784   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3012  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی گردن میں ایک سانپ ڈال دے گا، پھر آپ نے اس کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیت «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله» ۱؎ پڑھی راوی نے ایک مرتبہ یہ کہا کہ آپ نے اس کی مناسبت سے یہ آیت «سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة» ۲؎ تلاوت فرمائی، اور فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا مال جھوٹی قسم کھا کر لے لے وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ اس سے برہم (اور سخت غصے میں) ہو گا، پھر آپ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3012]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے (آل عمران: 180)۔

2؎:
عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے (آل عمران: 180)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3012