صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
110. بَابُ الْبَيْعَةِ فِي الْحَرْبِ أَنْ لاَ يَفِرُّوا:
باب: لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا۔
حدیث نمبر: 2960
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ عَدَلْتُ إِلَى ظِلِّ الشَّجَرَةِ فَلَمَّا خَفَّ النَّاسُ، قَالَ:" يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ أَلَا تُبَايِعُ، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ بَايَعْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَأَيْضًا فَبَايَعْتُهُ الثَّانِيَةَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا مُسْلِمٍ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تُبَايِعُونَ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: عَلَى الْمَوْتِ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، اور ان سے سلمہ بن الاکوع نے بیان کیا (حدیبیہ کے موقع پر) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر ایک درخت کے سائے میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ جب لوگوں کا ہجوم کم ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا، ابن الاکوع کیا بیعت نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دوبارہ اور بھی! چنانچہ میں نے دوبارہ بیعت کی (یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ) میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا، ابومسلم اس دن آپ حضرات نے کس بات پر بیعت کی تھی؟ کہا کہ موت پر۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1592  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیعت کا بیان۔`
یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے پوچھا: حدیبیہ کے دن آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1592]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے،
کیونکہ اس حدیث کا بھی مفہوم یہ ہے کہ ہم نے میدان سے نہ بھاگنے کی بیعت کی تھی،
بھلے ہم اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھو بیٹھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1592   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2960  
2960. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے بیعت کی اور اس کے بعد میں ایک درخت کے سائے کے نیچے چلا گیا: پھر جب ہجوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اے ابن اکوع ؓ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر سہی۔ لہٰذا میں نے آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی حدیث کہتا ہے)میں نے ان سے کہا: ابو مسلم! تم نے اس دن کس بات پر بیعت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2960]
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی حدیبیہ میں بیعت الرضوان مراد ہے۔
جو ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی۔
سورہ فتح میں اللہ تعالیٰ نے ان جملہ مجاہدین کے لئے اپنی رضا کا اعلان فرمایا ہے۔
رضي اللہ عنهم و رضوا عنه۔
آیت شریفہ ﴿لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾ (الفتح: 18)
میں اسی کا بیان ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2960   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2960  
2960. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے بیعت کی اور اس کے بعد میں ایک درخت کے سائے کے نیچے چلا گیا: پھر جب ہجوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اے ابن اکوع ؓ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر سہی۔ لہٰذا میں نے آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی حدیث کہتا ہے)میں نے ان سے کہا: ابو مسلم! تم نے اس دن کس بات پر بیعت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2960]
حدیث حاشیہ:

حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بڑے جری،بہادر اور جفاکش تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سے دوسری مرتبہ بیعت لی تاکہ اللہ کی راہ میں خوشی خوشی اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ شہسوار اور پیادہ دونوں طرح کہ لڑائی میں ماہر تھے تو دونوں صفات کے اعتبار سے دو دفعہ بیعت لی گئی۔
گویا تعددصفت،تعدد بیعت کا سبب بنا۔
(فتح الباري: 246/13)

موت پربیعت کرنے کامقصد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ جنگ میں ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں اگرچہ لڑتے لڑتے موت آجائے۔
محض مرنا مقصود نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2960