عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہا کہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا»”حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اور ختم ہونا ہی تھا“(بنی اسرائیل: ۸۱)، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد»”حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اور نہ ہی لوٹ کر آئے گا“(سبا: ۴۹)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3138
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہا کہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا»”حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اور ختم ہونا ہی تھا“(بنی اسرائیل: ۸۱)، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد»”حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اور نہ ہی لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3138]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اورختم ہونا ہی تھا۔ (بنی اسرائیل: 81)
2؎: حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اورنہ ہی لوٹ کر آئے گا۔ (سبا: 49)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3138