سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: تفسیر قرآن کریم
19. باب وَمِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ
باب: سورۃ الکہف سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3149
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى صَاحِبِ الْخَضِرِ، قَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: أَيْ رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِهِ؟ فَقَالَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَجَعَلَ وَيُقًالُ يُوسَعُ، فَحَمَلَ مُوسَى حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَقَدَ مُوسَى وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ حَتَّى خَرَجَ مِنَ الْمِكْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، قَالَ: وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَاءِ، حَتَّى كَانَ مِثْلَ الطَّاقِ وَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَلِفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا وَنُسِّيَ صَاحِبُ مُوسَى أَنْ يُخْبِرَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَى قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا سورة الكهف آية 62، قَالَ: وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا سورة الكهف آية 63 قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا سورة الكهف آية 64، قَالَ: فَكَانَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا، قَالَ سُفْيَانُ: يَزْعُمُ نَاسٌ أَنَّ تِلْكَ الصَّخْرَةَ عِنْدَهَا عَيْنُ الْحَيَاةِ وَلَا يُصِيبُ مَاؤُهَا مَيِّتًا إِلَّا عَاشَ، قَالَ: وَكَانَ الْحُوتُ قَدْ أُكِلَ مِنْهُ فَلَمَّا قُطِرَ عَلَيْهِ الْمَاءُ عَاشَ، قَالَ: فَقَصَّا آثَارَهُمَا حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَأَى رَجُلًا مُسَجًّى عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَقَالَ: أَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ، فَقَالَ مُوسَى: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا {66} قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {67} وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا {68} قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا {69} سورة الكهف آية 66-69 قَالَ لَهُ الْخَضِرُ: فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا سورة الكهف آية 70 قَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَى يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَالِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا {71} قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {72} قَالَ لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا {73} سورة الكهف آية 71-73 ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ وَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا {74} قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {75} سورة الكهف آية 74-75، قَالَ: وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا {76} فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 76 ـ 77، يَقُولُ: مَائِلٌ، فَقَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ سورة الكهف آية 77 فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا {77} قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا {78} سورة الكهف آية 77-78، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا أَنَّهُ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْأُولَى كَانَتْ مِنْ مُوسَى نِسْيَانٌ، قَالَ: وَجَاءَ عُصْفُورٌ حَتَّى وَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنَ الْبَحْرِ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: وَكَانَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ، وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَكَانَ يَقْرَأُ، وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا مُزَاحِمٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، يَقُولُ: حَجَجْتُ حَجَّةً وَلَيْسَ لِي هِمَّةٌ إِلَّا أَنْ أَسْمَعَ مِنْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْخَبَرَ حَتَّى سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَقَدْ كُنْتُ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ سُفْيَانَ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْخَبَرَ.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہما السلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم» (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، اللہ نے ان کی سرزنش کی اور ان کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ «مجمع البحرین» (دو سمندروں کے سنگم) کے مقام پر ہے، وہ تم سے بڑا عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! میری ان سے ملاقات کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ نے کہا: «زنبیل» (تھیلے) میں ایک مچھلی رکھ لو پھر جہاں مچھلی غائب ہو جائے وہیں میرا وہ بندہ تمہیں ملے گا، موسیٰ چل پڑے ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے، موسیٰ نے ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لی، دونوں چلتے چلتے صخرہ (چٹان) کے پاس پہنچے، اور وہاں سو گئے، (سونے کے دوران) مچھلی تڑپی، تھیلے سے نکل کر سمندر میں جا گری، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مچھلی کے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہاؤ کو روک دیا، یہاں تک کہ ایک محراب کی صورت بن گئی اور مچھلی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کا راستہ بن گیا، موسیٰ اور ان کے خادم کے لیے یہ حیرت انگیز چیز تھی، وہ نیند سے بیدار ہو کر باقی دن و رات چلتے رہے، موسیٰ کا رفیق سفر انہیں یہ بتانا بھول گیا کہ فلاں مقام پر مچھلی تھیلے سے نکل کر سمندر میں جا چکی ہے، صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا: بھئی ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر میں بہت تھک چکے ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اس جگہ سے آگے بڑھ جانے کے بعد ہی لاحق ہوئی جس جگہ اللہ نے انہیں پہنچنے کا حکم دیا تھا، غلام نے کہا: بھلا دیکھئیے تو سہی (کیسی عجیب بات ہوئی) جب ہم چٹان پر فروکش ہوئے تھے (کچھ دیر آرام کے لیے) تو میں آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھول ہی گیا، اور شیطان کے سوا مجھے کسی نے بھی اس کے یاد دلانے سے غافل نہیں کیا ہے، وہ تو حیرت انگیز طریقے سے سمندر میں چلی گئی، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یہی تو وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے، پھر وہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے پلٹے، وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر چل رہے تھے (تاکہ صحیح جگہ پر پہنچ جائیں) (سفیان (راوی) کہتے ہیں: کچھ لوگ سمجھتے ہیں اس چٹان کے قریب چشمہ حیات ہے، جس کسی مردے کو اس کا پانی چھو جائے وہ زندہ ہو جاتا ہے)، مچھلی کچھ کھائی جا چکی تھی۔ مگر جب پانی کے قطرے اس پر پڑے تو وہ زندہ ہو گئی، دونوں اپنے نشانات قدم دیکھ کر چلے یہاں تک کہ چٹان کے پاس پہنچ گئے وہاں سر ڈھانپے ہوئے ایک شخص کو دیکھا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام عرض کیا، انہوں نے کہا: تمہارے اس ملک میں سلام کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: میں موسیٰ ہوں، (اور میری شریعت میں سلام ہے) انہوں نے پوچھا: بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ کہا: ہاں، انہوں نے کہا: اے موسیٰ اللہ کے (بےشمار اور بے انتہائی) علوم میں سے تمہارے پاس ایک علم ہے، اللہ نے تمہیں سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا، اور مجھے بھی اللہ کے علوم میں سے ایک علم حاصل ہے، اللہ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے، جسے تم نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں تو کیا آپ مجھے اللہ نے آپ کو رشد و ہدایت کی جو باتیں سکھائیں ہیں انہیں سکھا دیں گے؟ انہوں نے کہا: آپ میرے پاس ٹک نہیں سکتے، اور جس بات کا آپ کو علم نہیں آپ (اسے بظاہر خلاف شرع دیکھ کر) کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں ان شاءاللہ جموں (اور ٹکوں) گا اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی (اور مخالفت) نہیں کروں گا۔ ان سے خضر (علیہ السلام) نے کہا: اگر آپ میرے ساتھ رہنا ہی چاہتے ہیں تو (دھیان رہے) کسی چیز کے بارے میں بھی مجھ سے مت پوچھیں اور حجت بازی نہ کریں جب تک کہ میں خود ہی آپ کو اس کے بارے میں بتا نہ دوں، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہاں ہاں، (بالکل ایسا ہی ہو گا) پھر خضر و موسیٰ چلے، دونوں سمندر کے ساحل سے لگ کر چلے جا رہے تھے کہ ان کے قریب سے ایک کشتی گزری، ان دونوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ ہمیں بھی کشتی پر سوار کر لو، (باتوں ہی باتوں میں) انہوں نے خضر کو پہچان لیا، ان دونوں کو کشتی پر چڑھا لیا، اور ان سے کرایہ نہ لیا، مگر خضر علیہ السلام کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف بڑھے اور اسے اکھاڑ دیا، (یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہوا) بول پڑے، ایک تو یہ (کشتی والے شریف) لوگ ہیں کہ انہوں نے بغیر کرایہ بھاڑا لیے ہمیں کشتی پر چڑھا لیا اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے ان کی کشتی کی طرف بڑھ کر اسے توڑ دیا تاکہ انہیں ڈبو دیں، یہ تو آپ نے بڑا برا کام کیا، انہوں نے کہا: کیا میں آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکتے؟ (خاموش نہیں رہ سکتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ اس پر میری گرفت نہ کریں میں بھول گیا تھا (کہ میں نے آپ سے خاموش رہنے کا وعدہ کر رکھا ہے) اور آپ میرے کام و معاملے میں دشواریاں کھڑی نہ کریں، پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر ساحل کے کنارے کنارے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ایک لڑکا انہیں اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اس کی کھوپڑی سر سے اتار کر اسے مار ڈالا، (موسیٰ سے پھر رہا نہ گیا) موسیٰ نے کہا: آپ نے بغیر کسی قصاص کے ایک اچھی بھلی جان لے لی، یہ تو آپ نے بڑی گھناونی حرکت کی ہے۔ انہوں نے کہا: میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کر سکیں گے۔ (کچھ نہ کچھ ضرور بول بیٹھیں گے راوی) کہتے ہیں اور یہ تو پہلے سے بھی زیادہ سخت معاملہ تھا، (اس میں وہ کیسے خاموش رہتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (یہ بھول بھی ہو ہی گئی) اب اگر میں اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھ بیٹھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئیے، میرے سلسلے میں آپ عذر کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ دونوں آگے بڑھے، ایک گاؤں میں پہنچ کر گاؤں والوں سے کہا: آپ لوگ ہماری ضیافت کریں مگر گاؤں والوں نے انہیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کر دیا، وہاں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو گری پڑتی تھی، راوی کہتے ہیں: جھکی ہوئی تھی تو خضر علیہ السلام نے ہاتھ (بڑھا کر) دیوار سیدھی کھڑی کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: یہ تو (ایسی گئی گزری) قوم ہے کہ ہم ان کے پاس آئے، مگر انہوں نے ہماری ضیافت تک نہ کی، ہمیں کھلایا پلایا تک نہیں، آپ چاہتے تو ان سے دیوار سیدھی کھڑی کر دینے کی اجرت لے لیتے۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اب آ گئی ہے ہماری تمہاری جدائی کی گھڑی، جن باتوں پر تم صبر نہ سکے میں تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے، ہمارے لیے تو یہ پسند ہوتا کہ وہ صبر کرتے تو ہم ان دونوں کی (عجیب و غریب) خبریں سنتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی بار تو موسیٰ علیہ السلام سے بھول ہوئی تھی، آپ نے فرمایا: (اسی موقع پر) ایک گوریا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ گئی پھر سمندر سے اپنی چونچ مار کر پانی نکالا، خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو متوجہ کر کے کہا: اس چڑیا کے سمندر میں چونچ مارنے سے جو کمی ہوئی ہے وہی حیثیت اللہ کے علم کے آگے ہمارے اور تمہارے علم کی ہے، (اس لیے متکبرانہ جملہ کہنے کے بجائے «اللہ اعلم» کہنا زیادہ بہتر ہوتا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: ابن عباس «وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا وكان يقرأ وأما الغلام فكان كافرا» ۲؎ پڑھا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس حدیث کو زہری نے عبیداللہ بن عتبہ سے عبیداللہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے ابی بن کعب رضی الله عنہم کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ اور اس حدیث کو ابواسحاق ہمدانی نے بھی سعید بن جبیر سے، سعید نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے ابی بن کعب رضی الله عنہم کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے،
۳- میں نے ابومزاحم سمرقندی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے علی ابن مدینی کو سنا وہ کہتے تھے: میں نے حج کیا، اور میرا حج سے مقصد صرف یہ تھا کہ میں سفیان سے خود سن لوں کہ وہ اس حدیث میں خبر یعنی لفظ «اخبرنا» استعمال کرتے ہیں (یا نہیں) چنانچہ میں نے سنا، انہوں نے «حدثنا عمرو بن دینار …» کا لفظ استعمال کیا۔ اور میں اس سے پہلے بھی سفیان سے یہ سن چکا تھا اور اس میں خبر (یعنی «اخبرنا») کا ذکر نہیں تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 16 (74)، 19 (78)، 44 (122)، والإجارة 7 (2267)، والشروط 12 (2728)، وبدء الخلق 11 (3278)، والأنبیاء (3400)، وتفسیر الکھف 4 (4725)، والتوحید 31 (7478)، صحیح مسلم/الفضائل 46 (2380) (تحفة الأشراف: 39) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبرا ضبط کر لیتا تھا (الکہف: ۷۹)، (موجودہ مصاحف میں «صالحۃ» کا لفظ نہیں ہے۔
۲؎: اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے: «وأما الغلام فكان أبواه مؤمنين فخشينا أن يرهقهما طغيانا وكفرا» (الكهف: 80) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اس کے ماں باپ ایمان والے تھے، چنانچہ ہم ڈر گئے کہ ایسا نہ ہو یہ لڑکا بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کو بھی شرارت و سرکشی اور کفر میں ڈھانپ دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 122]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت بہت قریب قریب ہے باب قائم فرمایا کہ جب پوچھا جائے کہ کون بڑا عالم ہے تو جواباً مفتی کو یہی فرمانا چاہیے کہ اللہ جانتا ہے لہٰذا حدیث میں موسیٰ علیہ السلام پر عتاب فرمانا یہی دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے علم کی نسبت اپنے لیے فرمائی، لہٰذا ان کو علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے تھی، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

◈ علامہ محمود حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی عالم سے جب «اي الناس اعلم» کا سوال کیا جائے تو «انا اعلم» کہنا پسندیدہ نہیں۔ اگرچہ اس کا اس وقت میں «اعلم الناس» ہونا محقق ہو، بلکہ مستحب یہ ہے کہ اس جواب میں «الله اعلم» کہے۔ چنانچہ حدیث باب سے یہ امر روشن ہے۔‏‏‏‏ [الأبواب والتراجم. ص 57]

سابقہ باب «الخروج فى طلب العلم» میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ ذکر فرمائے کہ جب موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ «هل تعلم احدا اعلم منك؟» کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ سے زیادہ بڑا کوئی اور عالم ہے؟ اور مذکورہ باب کے تحت یہ الفاظ وارد ہیں «انا اعلم»، لہٰذا یہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وعندي لا مخالفة بينهما» کہ میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص199]

فائدہ نمبر
فتوی کے آداب اور ان مسائل پر کئی پہلو سے گفتگو کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
➊ الشیخ حامد العمادی الدمشقی کی کتاب صلاح العالم بافتاء العالم
➋ فتاویٰ ابن الصلاح
الفتاویٰ المصریۃ للعز بن عبدالسلام
➍ فتاویٰ النووی
➍ فتاوی شمس الدین الرملی

نوٹ:
صلاۃ الرغائب سے متعلق ابن الصلاح اور العز بن عبدالسلام کے درمیان جو اختلاف رائے ہوا تھا وہ بھی تاریخی شہرت کا حامل ہے امام سبکی نے طبقات الشافیعۃ الکبرى میں خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا۔

فائدہ نمبر
مذکورہ واقعہ سیدنا موسیٰ و خضر علیہما السلام کا ہے بعض لاعلم طبقہ خضر علیہ السلام کو حیات سمجھتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں یہ فاسد اور باطل نظریہ قرآن و سنت سے دور ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئے کہ! تمہاری آج کی رات وہ رات ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ [صحيح البخاري رقم الحديث 116]
↰ لہٰذا اس حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بھی کوئی زمین پر زندہ تھا وہ انتقال کر گیا ہے۔

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرتے اور آپ کی معیت میں جہاد کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دوران فرمایا تھا۔
«اللهم ان تهلك هذه العصابة لا تعبد فى الارض»
اے اللہ اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہو گی۔
↰ یہ جماعت تین سو تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی۔ ان کے ناموں کی مع ولدیت و قبیلہ فہرست موجود ہے جو معروف ہے۔ مگر اس میں خضر علیہ السلام کا نام تک نہیں۔

خضر علیہ السلام کی حیات کے دلائل کا تجزیہ:
خضر علیہ السلام سیدنا آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ خضر علیہ السلام، آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ ان کی عمر کو دراز کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ دجال کی تکذیب کریں گے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
دارقطنی نے اس کو «دواد بن جراح عن مقاتل بن سليمان عن الضحاك» کے طریق سے روایت کیا ہے۔
دؤاد بن جراح ضعیف مقاتل متروک ہے ضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں سنا۔
↰ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے۔ [الاصابة، ص429]

سيدنا على رضى الله عنه سے ملاقات:
ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ میں نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کعبہ کا غلاف پکڑے ہوئے کہہ رہا تھا: «يا من لايشغله سمع عن سمع» اس روایت کے آخر میں ہے وہ کہہ رہا تھا جس کے ہاتھ میں خضر کی جان ہے۔
◈ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی محمد بن ہروی مجہول ہے، دوسرا راوی عبداللہ بن محرز یا محرر متروک ہے۔
◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں نے اس کی حدیث چھوڑ دی تھی۔
◈ ابن مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میری اس سے ملاقات ہوئی ہے میرے نزدیک اس سے تو بکری کی مینگنی زیادہ محبوب ہے۔ [كتاب الموضوعات، ج1، ص140]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خضرعلیہ السلام کی تعزیت:
مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو صحابہ جمع تھے۔ ایک خوبرو سفید داڑھی والا آدمی داخل ہوا، روایت کے آخری الفاظ ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شخص خضر علیہ السلام ہے۔ [المستدرک الحاکم ج3 ص55]
↰ مذکورہ بالا روایت میں عباد بن عبدالصمد ہے۔
◈ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سخت ضعیف ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے۔
◈ امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں سخت ضعیف ہے۔
◈ ابن عدی فرماتے ہیں ضعیف اور غالی شیعہ تھا۔ تفصيل كے لئے ديكهيے: [ميزان الاعتدال، ج2، ص269]
↰ ان روایات کے علاوہ اور بھی کئی روایات ہیں جو خضر علیہ السلام کی زندگی کو ثابت کرتی ہیں مگر وہ تمام روایات ضعیف، منقطع اور ناقابل حجت ہیں۔

فائدہ نمبر
مذکورہ بالا حدیث میں علم کے لیے سفر کرنا ثابت ہوا۔ کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بطور غرض علم کے، آپ سفر پر نکلے اور کوئی بعید نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ علم کے لیے سفر کرنے کے جواز پر اس حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں جیسا کہ سابقہ باب «خروج فى طلب العلم» میں ثابت فرمایا۔ سلف میں ان گنت ایسے واقعات معروف ہیں جن سے طلب علم کے سفر کو اختیار کرنا اور مشقت برداشت کرنے کو پسند کیا گیا ہے۔ چند واقعات نظر قرطاس ہیں:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے آپ نے ایک مہینہ کا مشقت کے ساتھ سفر کیا صرف ایک حدیث کی خاطر۔ [الرحلة للخطيب ص 109، ابن عاصم فى السنة رقم 514]
➋ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ (المتوفی80ھ) نے ایک حدیث میں شک کے ازالہ کے لیے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جس کے لیے آپ نے مصر کا سفر طے کیا۔ [حسن المحاضرة فى اخبار المصروالقاهرة، ج1، ص86]
➌ سیدنا عبدللہ بن فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ بیت المقدس سے مدینہ طیبہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس دین کی کوئی بات پوچھنے کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ تشریف لے گئے ہیں، جب وہ مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ طائف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ طائف پہنچے اور ان سے حدیث حاصل کی اور واپس روانہ ہو گئے۔ [المستدرك، ج1 ص257، وقال الذهبي صحيح]
➍ سیدنا سعید المسیب رحمہ اللہ (المتوفی94ھ) کا بیان ہے کہ میں صرف ایک حدیث کے لیے کئی کئی دنوں اور راتوں کا سفر طے کیا کرتا تھا۔ [معرفت علوم الحديث، ص8]
➎ عکرمہ رحمہ اللہ (المتوفی 105ھ) جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کے خصوصی شاگرد تھے اور محدث و فقیہ بھی تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں قرآن کریم کی ایک آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں چودہ سال سرگردان رہا، آخر اس کا علم ہوا تو اطمینان نصیب ہوا۔ [فتح القدير ج1 ص4]
➏ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے صرف ایک حدیث کی خاطر مدینہ سے مصر تک سفر کیا جس کی مسافت ایک ماہ بنتی ہے۔ [مسند حميدي ج1 ص189]
➐ عبید اللہ بن عدی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سننے کے لیے مدینہ طیبہ سے عراق تک کا سفر کیا جو ایک ماہ تک کی مسافت کا ہے۔ [فتح الباري ج1 ص175]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 113   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ`
«. . . سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ . . .»
. . . سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ:: 122]

تشریح:
نوف بکالی تابعین سے تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غصہ کی حالت میں اللہ کا دشمن کہہ دیا۔ کیونکہ انہوں نے صاحب خضر موسیٰ بن میشا کو کہہ دیا تھا جو کہ یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حالانکہ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام صاحب بنی اسرائیل ہی کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے خلاف رائے و قیاس پر چلنے والوں پر ایسا عتاب جائز ہے۔

سیدنا خضر علیہ السلام نبی ہوں یا ولی مگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہیں ہو سکتے۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوا اور ان کا مقابلہ ایسے بندے سے کرایا جو ان سے درجہ میں کم تھے، تاکہ وہ آئندہ ایسا دعویٰ نہ کریں، موسیٰ علیہ السلام نے جب خضر علیہ السلام کو سلام کیا، تو انہوں نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا، ساتھ ہی وہ گھبرائے بھی کہ یہ سلام کرنے والے صاحب کہاں سے آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خضر علیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہ تھا، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاءکے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کا علم ظاہر شریعت تھا۔ اور خضر علیہ السلام مصالح شرعیہ کے علم کے ساتھ خاص حکموں پر مامور تھے، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام کو ان کے کام بظاہر خلاف شریعت معلوم ہوئے حالانکہ وہ خلاف شریعت نہ تھے۔ کشتی سے ایک تختہ کا نکالنا اس مصلحت کے تحت تھا کہ پیچھے سے ایک ظالم بادشاہ کشتیوں کو بے گار میں پکڑنے کے لیے چلا آ رہا تھا، اس نے اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر چھوڑ دیا، جب وہ گزر گیا تو خضر علیہ السلام نے پھر اسے جوڑ دیا، بچے کا قتل اس لیے کہ خضر علیہ السلام کو وحی الٰہی نے بتلا دیا تھا کہ یہ بچہ آئندہ چل کر اپنے والدین کے لیے سخت مضر ہو گا اس مصلحت کے تحت اس کا ختم کرنا ہی مناسب جانا۔ ایسا قتل شاید اس وقت کی شریعت میں جائز ہو، پھر اللہ نے اس بچے کے والدین کو نیک بچے عطا کئے اور اچھا ہو گیا۔ دیوار کو اس لیے آپ نے سیدھا کیا کہ دو یتیم بچوں کا باپ انتقال کے وقت اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن کر گیا وہ دیوار اگر گر جاتی تو لوگ یتیموں کا خزانہ لوٹ کر لے جاتے۔ اس مصلحت کے تحت آپ نے فوراً اس دیوار کو باذن اللہ سیدھا کر دیا۔ موسیٰ اور خضر کے اس واقعہ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں، جن کی تفصیل نظر غائر والوں پر واضح ہو سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 122   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3149  
´سورۃ الکہف سے بعض آیات کی تفسیر۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہما السلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم» (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3149]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا (الکہف: 79) (موجودہ مصاحف میں) صالحۃ کا لفظ نہیں ہے۔

2؎:
اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا﴾ (الكهف: 80) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اُس کے ماں باپ ایمان والے تھے،
چنانچہ ہم ڈر گئے کہ ایسانہ ہو یہ لڑکا بڑا ہوکراپنے ماں باپ کو بھی شرارت وسرکشی اورکفر میں ڈھانپ دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3149