صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
117. بَابُ السُّرْعَةِ وَالرَّكْضِ فِي الْفَزَعِ:
باب: خوف کے موقع پر جلدی سے گھوڑے کو ایڑ لگانا۔
حدیث نمبر: 2969
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَزِعَ النَّاسُ فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ بَطِيئًا، ثُمَّ خَرَجَ يَرْكُضُ وَحْدَهُ فَرَكِبَ النَّاسُ يَرْكُضُونَ خَلْفَهُ، فَقَالَ:" لَمْ تُرَاعُوا إِنَّهُ لَبَحْرٌ فَمَا سُبِقَ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ".
ہم سے فضل بن سہل نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے محمد نے ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (مدینہ میں) لوگوں میں دہشت پھیل گئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر جو بہت سست تھا، سوا ر ہوئے اور تنہا ایڑ لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے پیچھے سوار ہو کر نکلے۔ اس کے بعد واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوفزدہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، البتہ یہ گھوڑا دریا ہے۔ اس دن کے بعد پھر وہ گھوڑا (دوڑ وغیرہ کے موقع پر) کبھی پیچھے نہیں رہا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2772  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں میں سب سے ممتاز تھے۔

(2)
مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہوتو ہر مسلمان کو اس کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار ہونا چاہیے۔

(3)
گھوڑے پر زین وغیرہ ڈالے بغیر سوار ہونا چاہیے جو عوام کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔

(5)
کسی کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سے ساتھیوں اور ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے البتہ بے موقع تعریف جس سے فخر وتکبر کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور خوشامد ممنوع ہے۔

(6)
رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ سے کثیر مواقع پر حاصل ہونے والی برکت رسول اللہﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2772   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1685  
´گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1685]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1685   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4988  
´الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4988]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہﷺ نے گھوڑے کی سبک رفتاری کو اس کے سمندر ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
تو اس سے محدث رحمتہ اللہ کا استد لال یہ ہے کہ اگر اندھیرے کی نسبت سے عشاء کی نماز کو کبھی عتمہ یاسوتے کی نماز کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
2) صاحب ایمان کو جری اور بہادر ہوناچاہئےاور اپنے معاشرے میں عام اصلاحی کاموں میں سب سے آگے ہونا چاہئےجیسے رسول اللہﷺ تھے۔
3) کبھی کبھار عام استعمال کی چیزیں عاریتا لے لینےمیں کوئی قباحت نہیں ہےاور مسلمانوں کو اس سلسلے میں بخیل نہیں ہونا چاہئے لیکن عاریتا لینے والے کوبھی چاہئے کہ فراغت کے بعد اس چیز کو پوری ذمے داری کےساتھ واپس کردے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4988   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2969  
2969. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا تو رسول اللہ ﷺ تن تنہا حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایک سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے۔ پھر آپ نے باہر نکل کر اسے ایڑی لگائی۔ آپ کے پیچھے لوگوں نے بھی گھوڑے دوڑائے۔ آپ ﷺ نے (واپسی پر) فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ گھوڑا تو دریا جیسا ہے۔ چنانچہ وہ گھوڑا اس کے بعد کبھی پیچھے نہیں رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2969]
حدیث حاشیہ:
آنحضرتﷺ نے اس موقع پر فوراً ہی معلومات کے لئے حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر ایڑ لگائی اور مدینہ کے دور دور اطراف میں گھوم پھر کر آپ واپس تشریف لائے اور وہ فرمایا جو روایت میں مذکور ہے۔
اسی سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2969   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2969  
2969. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا تو رسول اللہ ﷺ تن تنہا حضرت ابو طلحہ ؓ کے ایک سست رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے۔ پھر آپ نے باہر نکل کر اسے ایڑی لگائی۔ آپ کے پیچھے لوگوں نے بھی گھوڑے دوڑائے۔ آپ ﷺ نے (واپسی پر) فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ گھوڑا تو دریا جیسا ہے۔ چنانچہ وہ گھوڑا اس کے بعد کبھی پیچھے نہیں رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2969]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوطلحہ ؓ کا گھوڑا سست رفتار تھا۔
جب رسول اللہ ﷺ نے اس پر سواری کی تو آپ کی برکت سے وہ اتنا تیز رفتار ہوگیا کہ کسی گھوڑے کو آگے نہیں بڑھنے دیتاتھا، پھر آپ نے اس کی تعریف کی کہ یہ گھوڑا تو دوڑنے میں دریا کی سی روانی رکھتا ہے۔

امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ خوف و ہراس کے وقت جلدی کرنا اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر تیزی سے مقام خوف کی طرف بڑھنا احتیاط کے منافی نہیں بلکہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے جلدی کرنا ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2969